Maktaba Wahhabi

136 - 437
میں یکساں طورپرہیں، تمہاری تمام کیفیتیں اس کی سماعت وبصارت کے تحت ہیں، وہ تمہارے کلام کو سنتا، تمہاری جگہ کو دیکھتااورتمہاری مخفی باتوں اورسرگوشیوں کو جانتا ہے، جیسا کہ اس نے ارشاد فرمایا: ﴿أَلَا إِنَّهُمْ يَثْنُونَ صُدُورَ‌هُمْ لِيَسْتَخْفُوا مِنْهُ ۚ أَلَا حِينَ يَسْتَغْشُونَ ثِيَابَهُمْ يَعْلَمُ مَا يُسِرُّ‌ونَ وَمَا يُعْلِنُونَ ۚ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ‌﴾ (ھود۱۱ /۵) ’’دیکھو یہ اپنے سینوں کو دوہرا کرتے ہیں تاکہ اللہ سے پردہ کریں، سن رکھو جس وقت یہ کپڑوں میں لپٹ کر پڑتے ہیں(تب بھی)وہ ان کی چھپی اور کھلی باتوں کو جانتا ہے، وہ تو دلوں کی باتوں سے آگاہ ہے ۔‘‘ اورفرمایا: ﴿سَوَاءٌ مِّنكُم مَّنْ أَسَرَّ‌ الْقَوْلَ وَمَن جَهَرَ‌ بِهِ وَمَنْ هُوَ مُسْتَخْفٍ بِاللَّيْلِ وَسَارِ‌بٌ بِالنَّهَارِ﴾ (الرعد۱۳ /۱۰) ’’کوئی تم میں سے چپکے سے بات کہے یا پکار کر یا رات کو کہیں چھپ جائے یا دن(کی روشنی)میں کھلم کھلا چلے پھرے(اس کے نزدیک)برابر ہے ۔‘‘ اس کے سوانہ کوئی معبود ہے نہ پروردگار، اسی طرح حافظ ابن کثیر نے سورۂ مجادلہ کی آیت مَا يَكُونُ مِن نَّجْوَىٰ۔۔۔۔۔أَيْنَ مَا كَانُواکی تفسیر میں لکھا ہے کہ وہ ان پر مطلع ہے، ان کے کلام، ان کی مخفی باتوں اوران کی سر گوشیوں کو سنتا ہے، اللہ اسے جانتا بھی ہے اورسنتا بھی ہے اوراس کے ساتھ ساتھ اس کے مقررکردہ فرشتے بندوں کی باتوں کو ان کے نامہ اعمال میں لکھتے بھی جارہے ہیں، جیساکہ اس نے فرمایاہے: ﴿أَلَمْ يَعْلَمُوا أَنَّ اللّٰه يَعْلَمُ سِرَّ‌هُمْ وَنَجْوَاهُمْ وَأَنَّ اللّٰه عَلَّامُ الْغُيُوبِ﴾ (التوبۃ۹ /۷۸) ’’ کیا ان کو معلوم نہیں کہ اللہ ان کے بھیدوں اورمشوروں تک سے واقف ہےاوریہ کہ وہ غیب کی باتیں جاننے والا ہے ۔‘‘ اورفرمایا: ﴿أَمْ يَحْسَبُونَ أَنَّا لَا نَسْمَعُ سِرَّ‌هُمْ وَنَجْوَاهُم ۚ بَلَىٰ وَرُ‌سُلُنَا لَدَيْهِمْ يَكْتُبُونَ﴾ (الزخرف۴۳ /۸۰) ’’ کیا یہ لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ ہم ان کی پوشیدہ باتوں اورسرگوشیوں کو سنتے نہیں؟ہاں ہاں(سب سنتے ہیں)اورہمارے فرشتے ان کے پاس (ان کی )سب باتیں لکھ لیتے ہیں ۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ کئی ایک علماء نے بیان فرمایا ہے کہ اس بات پر اجماع ہے کہ اس آیت میں معیت سے مراداللہ تعالیٰ کا علم ہے لیکن اس کے علم کے ساتھ اس کی سماعت بھی مخلوق کو محیط اوراس کی بصارت بھی نافذ ہےکہ وہ ذات گرامی اپنی مخلوق پر اس طرح مطلع ہے کہ مخلوق کا کوئی امراس سے مخفی نہیں ہے۔ سلف کاکلام اس موضوع سے متعلق اس قدر کثرت کے ساتھ ہے کہ اسے شمار نہیں کیا جاسکتا، مقصود یہ ہے کہ یہ عقیدہ رکھنا کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات کے ساتھ ہرجگہ موجود ہے اوروَهُوَ مَعَكُمْکے معنی یہ ہیں کہ وہ بذاتہ اپنے بندوں کے ساتھ ہے اوراس کی طرف اشارہ جائز نہیں، یہ حد درجہ ساقط اورباطل ہے جیسا کہ بے شمار واضح دلائل سے یہ ثابت ہے، جن میں سے بعض دلائل کو قبل ازیں بیان بھی کیا جاچکا ہے۔اجماع اہل علم کی روشنی میں بھی یہ عقیدہ باطل ہے، جیسا کہ بعض ائمہ کرام کے اقوال اس سلسلہ میں بیان کیے جاچکے ہیں۔
Flag Counter