Maktaba Wahhabi

127 - 437
جس کا اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے حوالے سے اعتقاد رکھنا واجب ہے اورہمیں وہ سب کچھ بھی بتادیا ہے جس سے ہمیں اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔یہ معرفت اس کے اسماء وصفات اوراس کی پیداکرداہ اورصاف نظر آنے والی نشانیوں سے بھی حاصل ہوتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ انہی نشانیوں میں سے خود انسان کا اپنا وجود بھی ہے کہ یہ بلاشبہ ایک ایسی نشانی ہے جو اللہ تعالیٰ کی قدرت وعظمت اوراس کے کمال علم وحکمت پر دلالت کناں ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے: ﴿إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ‌ لَآيَاتٍ لِّأُولِي الْأَلْبَابِ﴾ (آل عمران۳ /۱۹۰) ’’بے شک آسمانوں اورزمین کی پیدائش اوررات اوردن کے بدل بدل کرآنے جانے میں عقل والوں کے لیے بہت بڑی نشانیاں ہیں ۔‘‘ نیزفرمایا: ﴿وَفِي الْأَرْ‌ضِ آيَاتٌ لِّلْمُوقِنِينَ ﴿٢٠﴾ وَفِي أَنفُسِكُمْ ۚ أَفَلَا تُبْصِرُ‌ونَ﴾ (الذاریات۵۱ /۲۰۔۲۱) ’’اوریقین کرنے والوں کے لیے زمین میں (بہت سی)نشانیاں ہیں اورخود تمہارے نفوس میں بھی، توکیا تم دیکھتے نہیں؟ ‘‘ باقی رہی اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی کی حقیقت وکیفیت اوراس کی صفات کی کیفیت، تواس کاتعلق اس علم غیب سے ہےجس پر اللہ تعالیٰ نے ہمیں مطلع نہیں فرمایا، اس پر ایمان لانا، اسے تسلیم کرنا اوراس میں غورو خوض کرنا واجب ہےجیسا کہ ہمارے سلف صالح، حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اورتابعین عظام رحمۃ اللہ علیہم نے اس میں غورو خوض نہیں کیا، نہ اس کے بارے میں سوال کیا بلکہ ان کا اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی پر اوراس پر جو اس نے اپنی کتاب میں اپنے بارے میں فرمایا یاجسے اپنے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی بیان فرمایا، ایمان تھا اوراس پر انہوں نے اپنی طرف سے کچھ اضافہ نہ کیا، ان کا ایمان تھا کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کےمثل کوئی چیز نہیں ہے اور وہ سمیع وبصیر ہے۔ جو شخص بھی اس طرح کا کوئی وسوسہ محسوس کرے یا اس کے سامنے اس طرح کا کوئی وسوسہ پیش کیا جائے تو اسے چاہئے کہ اسے زبان پر لانے کو بہت بڑا سمجھے اوردل کی اتھاہ گہرائیوں سے اس قسم کے وسوسوں کو مستردکردےاوریہ کہے کہ اللہ اوراس کے رسولوں پر ایمان رکھتا ہوں، نیز شیطانی وسوسوں سے محفوظ رہنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہے، وسوسوں کو جھٹک دے اوران سے فورا اعراض کرلے جیسا کہ سابقہ ذکر کی گئی احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہی حکم دیا ہےاورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ان وسوسوں کو بڑا سمجھنااورانہیں ردکردینا صریح ایمان ہے اوراس کے ساتھ ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی تلقین فرمائی ہے کہ اس باب میں سوال کرنے والوں کے ساتھ گفتگوکو طول بھی نہیں دینا چاہئے کیونکہ اس موضوع میں طول کلام، انسان کو بہت زیادہ شراور نہ ختم ہونے والے شکوک وشبہات تک پہنچادے گا۔شکوک وشبہات اور وسوسوں کے خاتمہ اوران سے محفوظ رہنے کے لیے سب سے بہتر علاج یہ ہےکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی تعمیل کی جائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کو مضبوطی سے تھام کر انہی کے ساتھ وابستگی اختیار کی جائے اوران مسائل میں غورو خوض نہ کیا جائے اوریہ طرز عمل اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد گرامی سے بھی ہم آہنگ ہے کہ : ﴿وَإِمَّا يَنزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰه ۖ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (فصلت۴۱ /۳۶)
Flag Counter