کےنہیں ہوتےاورنہ وہ شبہ کی پیداوار ہوتے ہیں، انہیں اس طرح دور کیا جاسکتا ہے کہ ان سےروگردانی کرلی جائےجیسا کہ حدیث میں ہے، اس قسم کے خیا ل کو وسوسہ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔(۲)وہ خیالات جومستقل نوعیت کے ہوتے ہیں اورشبہات کے نتیجہ میں پیدا ہوتے ہیں، ان کا ازالہ نظرواستدلال سے کیا جاتا ہے۔
علامہ طیبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حکم یہ ہے کہ وسوسہ کے وقت اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کی جائے اورکسی دوسرے کام میں مشغولیت اختیارکرلی جائے لیکن اس کے بارے میں یہ حکم نہیں ہے کہ اس پر غور کیا جائے اوردلیل دی جائے کیونکہ اس بات کا علم کہ اللہ عزوجل اپنے موجد سے بے نیاز ہے، ایک ضروری امر ہے جس میں کسی قسم کے مناظرہ کی کوئی گنجائش نہیں اورپھر اس مسئلہ میں زیادہ سوچ بچارکرنے سے انسان کی حیرت میں اضافہ ہوگا اورجس کایہ حال ہواس کا علاج یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرے اوراسی کی ذات گرامی کے ساتھ وابستگی اختیار کرے۔اس حدیث میں ایسے امور کے بارے میں کثرت سوال کی مذمت کا اشارہ بھی ہے، جن سے آدمی کو کوئی فائدہ نہ ہو اوروہ ان سے بے نیاز ہو، اس حدیث میں نبوت کی صداقت کی یہ دلیل بھی ہے کہ جن باتوں کے وقوع پذیر ہونے کی آپ نے پیش گوئی فرمائی، وہ واقع ہو کر رہیں ۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب ’’ موافقۃ صحیح المنقول لصریح المعقول ‘‘ میں فرماتے ہیں کہ لفظ تسلسل سے مراد تسلسل فی الموثرات ہوتا ہے۔۔۔اوریہ کہ حادث کا کوئی فاعل اورفاعل کا پھر کوئی فاعل ہو۔۔۔اوریہ بات صریح عقل اوراتفاق عقلاء کی روشنی میں باطل قرارپائی ہے اور یہی وہ تسلسل ہے جس کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم دیا ہےکہ اس سے اللہ تعالیٰ کی پنا ہ مانگی جائے۔اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رک جانے کا حکم بھی دیاہے اوریہ بھی حکم دیا ہے کہ اس موقع پر یہ کہا جائے کہ ’’ آمنتُ باللّٰهِ‘‘ جیساکہ صحیحین میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سےروایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’شیطان تم میں سےکسی ایک کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے کہ اس کو کس نے پیدا کیا حتی کہ وہ اس سے یہ کہتا ہے کہ تیرے رب کو کس نے پیدا کیاہے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’آدمی جب یہاں تک پہنچ جائے تووہ اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگےاوررک جائے ۔‘‘اورایک روایت میں الفاظ یہ ہیں کہ ’’لوگ ہمیشہ سوال کرتے رہیں گے حتی کہ وہ یہ بات بھی پوچھیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے تو مخلوق کو پیدا فرمایا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کو کس نے پیدا کیا ہے؟‘‘ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ’’ میں ابھی مسجد ہی میں تھا کہ میرے پاس کچھ بدوی لوگ آئے اورانہوں نے کہا کہ ابوہریرہ !یہ مخلوق تو اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمائی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو کس نے پیدافرمایا ہے؟ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے ہاتھ میں کنکریاں پکڑ کران پر دے ماریں اورکہا کہ کھڑے ہوجاؤ، کھڑے ہوجاؤ، میرے خلیل( صلی اللہ علیہ وسلم )نے بالکل سچ فرمایا تھا۔‘‘صحیح میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے :’’آپ کی امت کے لوگ ہمیشہ یہ سوال کرتے رہیں گےکہ یہ کیا ہے؟ حتی کہ وہ کہیں گے کہ اس مخلوق کو اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا ہے تو اللہ تعالیٰ کو کس نے پیدا کیا ؟‘‘
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کے کلام سے مقصودپوراہوگیا۔شاید اب سائل اوراس کے دوست کے سامنے بات واضح ہوگئی ہو جس نے یہ شبہ پیش کیا تھا ۔ہم نے آیات، احادیث اوراہل علم کے جن اقوال کو ذکر کیا ہے ان سے اس شبہ کا نہ صر ف یہ کہ ازالہ ہوجاتا ہے بلکہ یہ اس شبہ کو بیخ وبن سے اکھاڑ کر اسے بالکل باطل کردیتے ہیں کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا نہ کو ئی شبیہ ہے، نہ ہم سراورنہ شریک ۔وہ اپنی ذات، اسماء، صفات اورافعال میں کامل ہے، وہ ہر چیز کا خالق ہےاوراس کے سوا ہرچیز مخلوق ۔اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب مقدس میں اپنے رسول امین صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی ہمیں وہ سب کچھ بتادیا ہے
|