نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو یہ ارشاد فرمایا ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہے اوراس سےرک جائے ۔‘‘تواس کے معنی یہ ہیں کہ جب یہ وسوسہ پیدا ہوتوآدمی کوچاہئے کہ اس کے شرکو دورکرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرے اوراس کے بارے میں غوروفکر سے بازرہےاورجان لے کہ یہ خیال باطل شیطانی وسوسہ ہے اورشیطان کی یہ کوشش ہے کہ وہ انسانوں کو گمراہ کرکے فتنہ وفساد میں مبتلاکرد ے، لہذا وسوسہ کی طرف مائل ہونے سے فورا اعراض کرنا چاہئے اوراسے ختم کرنے کے لیے اسے ذہن سے جھٹک کر آدمی کو چاہئے کہ کسی اورکام میں مشغول ہوجائے۔
(شرح صحیح مسلم از امام نووی، ص:۱۵۶)
حافظ ابن حجررحمۃ اللہ علیہ’’فتح الباری‘‘میں اس جواب کے شروع میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی مذکورہ حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں کہ ’’تمہارے رب کوکس نے پیدا کیا، جب یہاں تک پہنچ جائے تو اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگے اوررک جائے ۔‘‘یعنی اس وسوسہ کو مزید جاری رکھنے سے رک جائے، اس کے ازالہ اورخاتمہ کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرے اورجان لے کہ اس وسوسہ کے ذریعے شیطان اس کے دین وعقل کو خراب کرنا چاہتا ہے، لہذا کسی دوسری بات میں مشغولیت اختیار کرکے اسے ترک کرنے کی کوشش کرنی چاہئے ۔
علامہ خطابی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ جب شیطان وسوسہ ڈالے اورانسان اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتے ہوئے اس وسوسہ کو مزید وسعت دینے سے رک جائے، تووسوسہ ختم ہوجاتا ہے ۔انسان کا انسان کے ساتھ معاملہ ہوتواسے حجت وبرہان کے ساتھ خاموش کیا جاسکتا ہے کیوں کے انسان کے ساتھ کلام سوال وجواب کی صورت میں ہوتا ہے اور یہ کلام محدود ہوتا ہے ۔اگرانسان صحیح اسلوب اختیار کرے اورصحیح دلیل پیش کرے تومدمقابل جو انسان ہو وہ خاموش ہوجاتا ہے لیکن اس کے برعکس شیطان کے وسوسہ کی کوئی انتہا نہیں ہے۔انسان جب ایک دلیل دیتا ہے توشیطان اس کے مقابلہ میں دوسری دلیل پیش کرتا ہے اوریہ سلسلہ جاری رہتا ہے حتی کہ انسان حیران وپریشان ہوجاتا ہے۔ ((نعوذ باللّٰه ذلك))
خطابی فرماتے ہیں کہ شیطان کا یہ کہنا کہ’’تیرے رب کو کس نے پیدا کیا ۔‘‘یہ ایک بے معنی کلام ہے جس کا آخری حصہ پہلے کے مخالف ہے کیونکہ جو خالق ہواس کےلیے یہ محال ہے کہ وہ مخلوق ہو ۔اس سوال کواگر صحیح مان لیا جائے تو اس سے تسلسل لازم آتا ہے اوروہ محال ہے اورعقل نے یہ ثابت کیا ہے کہ محدثات کسی محدث کی محتاج ہیں اوراگرمحدث بھی کسی اورمحدث کا محتاج ہو تو وہ محدث نہ رہا بلکہ وہ بھی محدثات میں سے ہوگیا۔
علامہ خطابی نے یہاں جو شیطانی وسوسہ اورانسانی کلام میں فرق کیا ہے یہ محل نظر ہے کیونکہ صحیح مسلم میں جو حدیث ہشام بن عروۃ عن ابیہ کی سند سے ہے، اس میں یہ الفاظ ہیں کہ لوگ ہمیشہ سوال کرتے رہیں گےکہ اس مخلوق کو تو اللہ نے پیدا کیا ہے تواللہ کو کس نے پیدا کیا ہے؟جو شخص اس طرح کی کوئی بات پائے تووہ یہ کہے کہ ’’ آمنتُ باللّٰه ‘‘’’میں اللہ تعالیٰ پرایمان رکھتا ہوں ‘‘ تو اس حدیث میں اس بات میں غوروخوض کو جاری رکھنے سے منع فرمادیا ہے اوراس اعتبار سے کوئی فرق نہیں کیا کہ سائل بشرہے یا کوئی اور۔
صحیح مسلم میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ اس کے بارے میں مجھ سے دوآدمیوں نے پوچھا لیکن جب سوال ہی بے معنی تھا تووہ جواب کا مستحق نہ تھا یا اس قسم کے وسوسہ سے رک جانا اسی طرح ہے جس طرح صفات وذات باری کے بارے میں غورو خوض سے روک دیا گیا ہے۔علامہ مازری بیان کرتے ہیں کہ وسوسوں کی دوقسمیں ہیں (۱) جو مستقل نوعیت
|