’’ میں اللہ تعالیٰ اوراس کے رسولوں پر ایمان رکھتا ہوں ۔‘‘
اس کے بعد امام مسلم نے اس حدیث کو کچھ دوسرے الفاظ کے ساتھ بھی روایت کیا ہے اورپھر حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت ذکر کی ہے جس میں یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ ’’اللہ عزوجل نے ارشادفرمایا ہے، ‘‘ آپ کی امت کے لوگ یہ کہتے رہیں گے کہ یہ کیا ہے، یہ کیا ہے حتی کہ وہ بھی کہنے لگیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کوپیدافرمایا لیکن اللہ تعالیٰ کو کس نے پیدا کیا ہے؟‘‘ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نےحضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی یہ حدیث بھی ذکر کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حاضر ہوئے اورانہوں نے کہا کہ ہم اپنے نفسوں میں کچھ ایسی باتیں پاتے ہیں کہ جنہیں زبان پر لانابہت بڑا کام محسوس ہوتا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ کیا تم نے یہ صورت حال پا لی ہے ؟‘‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جواب دیا:’’جی ہاں‘‘ توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’یہ تو صریح ایمان ہے ۔‘‘پھر امام مسلم نے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی یہ حدیث بھی بیان کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے وسوسہ کے بارے میں پوچھاگیا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ’’یہ تومحض(خالص)ایمان ہے ۔‘‘
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے’’شرح مسلم‘‘میں ان احادیث کے ذیل میں فرمایا ہے کہ جہاں تک ان احادیث کے معانی اورفقہ کا تعلق ہے توان میں جو یہ الفاظ آئے ہیں کہ’’یہ تو صریح ایمان ہے، یہ محض ایمان ہے ۔‘‘توان کے معنی یہ ہیں کہ تمہاراان باتوں کے زبان پر لانے کو بہت بڑا سمجھنا صریح ایمان ہے کہ اسے بڑا سمجھنااورعقیدہ رکھنا توبڑی دورکی بات ہے، شدت خوف کی وجہ سے اسے زبان پرلانے کو بھی بہت گراں سمجھنا اس بات کی دلیل ہے کہ ایمان یقینا مکمل اورتمام شکوک وشبہات سے پاک ہے، دوسری روایت میں اگرچہ اس بات کو بڑا سمجھنے کا ذکر نہیں ہے لیکن اس سے بھی مرادیہی ہے، یہ گویا پہلی روایت ہی کااختصار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امام مسلم نے پہلی روایت کو پہلے ذکرفرمایا ہے۔اس حدیث کے یہ معنی بھی بیان کیے گئے ہیں کہ شیطان جب انسان کو گمراہ کرنے سے مایوس ہوجاتا ہے تووہ اس کے دل میں وسوسے ڈال کراسے پریشان کرنے کی کوشش کرتا ہے، جب کہ وہ کافر کے پاس جیسے چاہتا ہے آتا جاتا ہے اوراس کے سلسلہ میں صرف وسوسہ پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ اس کے ساتھ تووہ جس طرح چاہتا ہے، کھیلتا ہے تواس اعتبار سے حدیث کے معنی یہ ہوں گے کہ وسوسہ کا سبب محض ایمان ہے یا یہ کہ وسوسہ ایمان کے خالص ہونے کی علامت ہے، چنانچہ قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے اسی قول کو اختیار فرمایا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جویہ فرمایا ہےکہ جوشخص ایسا محسوس کرے تووہ یہ کہے کہ ’’ آمنتُ باللّٰه ‘‘ اوردوسری روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہے اوراس وسوسہ سے رک جائے تواس کے معنی یہ ہیں کہ اس باطل خیال کوجھٹک دےاوراس کے ازالہ کے لیے اللہ کی طرف توجہ کرے۔امام مازری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم یہ دیا ہے کہ وسوسوں کو نظر واستدلال کے طریق سے باطل قراردینے کی بجائے ان سے اعراض کرکے اورانہیں جھٹک کر دورکرنا چاہئے تواس سلسلہ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ وسوسوں کی دوقسمیں ہیں (۱)وہ جو مستقل نہیں ہیں اورنہ وہ شبہات کی پیداوار ہیں تواس قسم کے وسوسوں کواعراض اورروگردانی کے ذریعہ ختم کیا جاسکتا ہے، چنانچہ پہلی حدیث کو اسی معنی پر محمول کیا جائے گااوراس طرح کی کیفیت کو وسوسہ کا نام دیا جائے گا، گویا جب کسی اصل کے بغیر کوئی امر طاری ہوتواسے دلیل پر غوروفکرکیےبغیر ردکردیاجائے گاکہ اس کا کوئی اصل ہے ہی نہیں کہ اس کا جائزہ لیا جائے لیکن اس کے برعکس جو وسوسے شبہات کی پیداوار ہیں، انہیں باطل قراردینے کے لیے نظر واستدلال ہی کا طریقہ اختیار کیا جائے گا۔واللہ اعلم۔
|