Maktaba Wahhabi

123 - 437
بعض سلف نے فرمایا ہے کہ یہ آیت عام ہے اورہر اس دلیل کو شامل ہے جو اہل باطل قیامت تک پیش کریں گے۔احادیث صحیحہ سے یہ ثابت ہےکہ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا:’’یارسول اللہ !ہمارےدل میں کبھی ایسی باتیں آتی ہیں، جنہیں زبان پر لانا ہم بہت مشکل سمجھتے ہیں ؟‘‘فرمایا :’’کیا یہ صورت تم میں پیدا ہوگئی ہے؟‘‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا :’’جی ہاں۔‘‘ فرمایا:’’یہ تو صریح ایمان ہے ۔‘‘بعض اہل علم نے اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ انسان کے دل میں شیطان کبھی ایسے شکوک ووسوسے پیدا کرتا ہے کہ ان کی خرابی اورقباحت کی وجہ سے انہیں زبان پر لانا بہت مشکل محسوس ہوتا ہے حتی کہ انہیں زبان پر لانے سے یہ کہیں آسان معلوم ہوتا ہے کہ انسان آسمان سے گرپڑے، لہذا مرد مومن کا ان وسوسوں کو منکر سمجھنا، ان کو بہت برا سمجھنا اوران کے خلاف جنگ کرنا صریح ایمان ہےکیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی اوراس کے کمال اسماءوصفات پر سچے ایمان اوراس بات پر ایمان کہ اس کا کوئی مثیل ونظیر نہیں اوروہ خلاق، علیم، حکیم اورخبیر ہے، کا بھی یہ تقاضا ہے کہ مرد مومن ان شکوک وشبہات کا انکار کردے، ان کے خلاف جنگ کرے اوران کے باطل ہونے کا عقیدہ رکھے ۔بلاشک وشبہ آپ کے دوست نے جو ذکر کیا یہ اسی قسم کے وسوسوں میں سے ہے، آپ نے اس کا اچھا جواب دیا ہے اور صحیح طریقہ سے اس کی تردید کی ہے۔اللہ تعالیٰ آپ کو مزید علم وتوفیق سے نوازے۔ اس سوال کے جواب کے سلسلہ میں، اس مسئلہ کے بارے میں وارد بعض احادیث اور اہل علم کے کلام کے بعض حوالہ جات ان شاءاللہ تعالیٰ اب میں ذکر کروں گا تاکہ آپ کے لیے اورشبہ میں مبتلا آپ کے دوست کے لیے صورت حال واضح ہوجائے اوریہ بھی معلوم ہوجائے کہ اس قسم کے شبہات کے پیدا ہونے کے وقت ایک مومن کے لیے کیا واجب ہے، اللہ تعالیٰ کی توفیق وعنایت سے اس موضوع سے متعلق کچھ دیگر ضروری باتیں بھی ذکر کی جائیں گی۔ وهو سبحانه ولي التوفيق والهادي الي سوآء السبيل ۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب ‘‘الجامع الصحیح’’مع فتح الباری ص ۳۳۶ ج ۶ طبع مطبعہ سلفیہ)کے’’باب صفۃ ابلیس وجنودہ‘‘ میں فرماتے ہیں(یحیی بن بکیر، لیث، عقیل، ابن شہاب، عروہ بن زبیر کی سند کے ساتھ )کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نےبیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’شیطان تم میں سے ایک کے پاس آتا ہے اوریہ کہتا ہے کہ اس چیز کو کس نے پیدا کیا، اس کو کس نے پیدا کیاحتی کہ وہ کہتا ہے کہ تیرے رب کو کس نے پیدا کیا ؟جب کوئی آدمی یہاں تک پہنچ جائے تووہ اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہے(استغفارپڑھے )اوررک جائے۔‘‘ پھر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح البخاری(مع فتح البخاری ص ۲۶۴ جلد ۱۳)کتاب الاعتصام میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی یہ حدیث بیان کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’لوگ ہمیشہ سوال کرتے رہیں گے حتی کہ وہ یہ کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ ہرچیز کا خالق ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا خالق کون ہے؟‘‘ امام مسلم نے صحیح مسلم (مع شرح النووی ص ۱۰۴ ج ۲)میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی یہ حدیث بیان کی ہے جو قبل ازیں ہم صحیح بخاری کے حوالے سے ذکر کرآئے ہیں، نیز انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک دوسری حدیث بھی ذکر کی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’لوگ ہمیشہ سوال کرتے رہیں گے حتی کہ وہ یہ کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے تو مخلوق کو پیدا فرمایا لیکن اللہ تعالیٰ کو کس نے پیدا کیا ہے۔جوشخص اس طرح کی کوئی بات پائے تووہ یہ کہے کہ ((آمنتُ باللّٰه ورُسُلِهِ))
Flag Counter