’’اللہ تم کو حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں ان کے حوالے کردیا کرواورجب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگوتوانصاف سے فیصلہ کیا کروتحقیق اللہ تعالیٰ تمہیں بہت خوب نصیحت کرتا ہے۔بے شک اللہ سنتا(اور)دیکھتا ہے۔مومنو!اللہ اوراس کے رسول کی فرماں برداری کرواورجو تم میں سے صاحب حکومت ہیں ان کی بھی اوراگرکسی بات میں تم میں اختلاف واقع ہوتواگراللہ اورروزآخرت پر ایمان رکھتے ہوتواس میں اللہ اوراس کے رسول(کے حکم )کی طرف رجوع کرو۔یہ بہت اچھی بات ہےاوراس کا مآل(انجام)بھی اچھا ہے ۔‘‘
اس آیت کریمہ کے عمومی مخاطب اگرچہ حاکم ومحکوم اورراعی ورعایا ہیں لیکن ان کے ساتھ ساتھ اس کے مخاطب قضاۃوحکام بھی ہیں کہ انہیں حکم ہے کہ وہ عدل وانصاف کے ساتھ فیصلہ کریں جیسا کہ مومنوں کو حکم ہے کہ وہ اس فیصلہ کو دل وجان سے قبول کریں جو اللہ تعالیٰ کی شریعت کے مطابق ہو اورجسے اللہ نے اپنے رسول پر نازل فرمایا ہو، نیز انہیں حکم ہے کہ تنازع اوراختلاف کی صورت میں وہ معاملہ اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول کے سپرد کریں۔
مسلمان بھائیو!اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی شریعت کے مطابق فیصلہ کرنا اورشریعت الٰہی سے اپنے مقدمات کا فیصلہ کرانا یہ وہ امر ہے جسے اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول نے واجب قراردیا ہےاور اللہ تعالیٰ کی عبودیت اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ورسالت کی شہادت کا یہی تقاضا ہے اوراس سے یا اس کے کسی جزء سے اعراض موجب عذاب الٰہی ہے، خواہ کوئی بھی حکومت اپنی رعایا کے ساتھ معاملہ میں اس بارے میں کوتاہی کرے یا کسی بھی زمان ومکان کی کوئی مسلمان جماعت عقائدوافکار کے باب میں کوتاہی کرے اوریہ کوتاہی خواہ خاص مسائل میں ہو یا عام میں یا ایک جماعت کے دوسری جماعت کے ساتھ یا ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان کے ساتھ تعلقات میں، ان تمام صورتوں میں حکم ایک ہی ہے ۔جب ساری مخلوق اسی کی ہے توحکم بھی اسی کا چلے گا کہ وہ احکم الحاکمین ہے ۔ وہ شخص ایمان سے محروم ہے جس کا عقیدہ یہ ہوکہ انسانوں کے احکام وآراءاللہ اوراس کےرسول کے حکم سے بہتر یا اس کے مثیل ومشابہ ہیں یا وہ اس بات کو جائز قراردےکہ شریعت کی بجائے وضعی احکام یا انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین پر بھی عمل کیا جاسکتا ہے، ایسا شخص ایمان سے محروم ہے خواہ وہ یہ عقیدہ بھی رکھے کہ اللہ تعالیٰ کےاحکام بہتر، اکمل اورمبنی بر عدل وانصاف ہیں۔عامۃ المسلمین، امراءوحکام اوراہل حل وعقدپریہ واجب ہےکہ وہ اللہ عزوجل سے ڈریں، اپنے ملکوں اوراپنے تمام امور ومعاملات میں شریعت الٰہی کے مطابق فیصلہ کریں تاکہ اپنے آپ کو اوراپنے ملکوں کو دنیا وآخرت میں عذاب الٰہی سے بچاسکیں اوران علاقوں سے عبرت حاصل کریں جہاں احکام الٰہی سے اعراض کیا گیا تووہ عذاب الٰہی کی گرفت میں آگئے، اہل مغرب کی تقلید اوران کے طریقہ کی پیروی کی وجہ سے اختلاف وانتشاراوربہت سے فتنوں میں مبتلاہوگئے، خیروبھلائی سے محروم ہوگئے اورایک دوسرے کے خون سے اپنے ہاتھوں کو رنگنے لگے حتی کہ ان کی صورت حال خراب سے خراب ترہوتی چلی جارہی ہے اوریہ صورت حال اس وقت تک درست نہ ہوگی اوردشمنوں کا سیاسی وفکری تسلط اس وقت تک ختم نہ ہوگا جب تک وہ اپنےاللہ کی طرف رجوع نہیں کرتے اوراس کے بتائے ہوئے اس صراط مستقیم پر نہیں چلتے جسے اس نے اپنے بندوں کے لیے پسند فرمایا ہے، جس پر چلنے کا اس نے حکم دیا اورجس کے نتیجہ میں ابدی وسرمدی نعمتوں والی جنتوں کا وعدہ فرمایا ہے اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے کیا سچ فرمایا ہے کہ :
﴿وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَىٰ ﴿١٢٤﴾ قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِي أَعْمَىٰ وَقَدْ كُنتُ بَصِيرًا ﴿١٢٥﴾قَالَ كَذَٰلِكَ أَتَتْكَ آيَاتُنَا فَنَسِيتَهَا ۖ وَكَذَٰلِكَ الْيَوْمَ تُنسَىٰ﴾ (طہ۲۰ /۱۲۴۔۱۲۶)
|