’’اورکسی مومن مرد اورمومن عورت کو حق نہیں ہے کہ جب اللہ اوراس کا رسول کوئی امرمقررکردیں تووہ اس کام میں اپنا بھی کچھ اختیار سمجھیں ۔‘‘
اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’ تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک اپنی خواہش کواس دین کے تابع نہیں کردیتا، جسے میں لایا ہوں ۔‘‘ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے، اسے ہم نے صحیح سند کے ساتھ ’’كتاب الحجة‘‘ میں روایت کیا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا:’’ کیا یہ بات نہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے جن اشیاء کو حلال قراردیا تھا وہ(علماء ومشائخ) انہیں حرام قراردےدیتے تھے توتم لوگ بھی انہیں حرام سمجھنے لگ جاتے تھے اوروہ جب اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ اشیاء کو حلال قراردیتے تھے توتم لوگ بھی انہیں حلال سمجھنے لگ جاتے تھے؟‘‘ حضرت عدی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:’’جی ہاں، یہ بات توتھی ۔‘‘توآپ نے فرمایا:’’بس یہی ان کی عبادت کرنا ہے ۔‘‘اسی طرح حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نےبعض مسائل میں جھگڑا کرنے والوں سے یہ کہا تھا :’’قریب ہے کہ تم پر آسمان سے پتھروں کی بارش برسنے لگے کہ جب میں یہ کہتا ہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےیہ فرمایا ہےتوتم یہ کہنے لگتے ہوکہ ابوبکر وعمر(رضی اللہ عنہم)نے یہ کہا ہے ۔‘‘
تواس گفتگوکے معنی یہ ہیں کہ بندے پر یہ واجب ہے کہ وہ اللہ اوراس کے رسول کے ارشادات کے سامنے مکمل طورپرسراطاعت جھکادے اوراللہ ورسول کے ارشادات کو ہرشخص کے قول پر ترجیح دے۔
یہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی رحمت وحکمت کا تقاضا ہے کہ اس کے بندوں کے فیصلے اس کی شریعت ووحی کے ساتھ ہوں کیونکہ ایک انسان کو جو ضعف، خواہش، عجزو درماندگی اورجہالت جیسے عوارض لاحق ہوسکتے ہیں اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ان سے پاک ہے اوروہ حکیم وعلیم ولطیف وخبیر ہے، اپنے بندوں کے حالات اوران کی مصلحتوں کو جانتا اوراس بات سے خوب آگاہ ہے کہ بندوں کےحال ومستقبل کے اعتبار سے کو ن سی بات ان کے لیے موزوں ہے۔یہ بھی اس کی تمام رحمت کا اظہار ہےکہ اس نے اپنے بندوں کے تنازعات اورامور زندگی سے متعلق ان کے جھگڑوں کافیصلہ کرنا اپنے ہاتھ میں لےلیا ہے تاکہ انہیں عدل، خیر اورسعادت حاصل ہوبلکہ رضا، راحت اوراطمینان وسکون قلب کی دولت سے شادکام ہوں، اس لیے کہ بندے کو جب یہ معلوم ہوگا کہ متنازعہ معاملہ میں صادرہونے والا حکم اللہ خالق وعلیم وخبیر کاحکم ہے تو بندہ تسلیم ورضا کا مظاہر ہ کرتے ہوئے اسے قبول کرے گا، خواہ وہ حکم اس کی اپنی خواہش وارادہ کے خلاف ہی کیوں نہ ہولیکن اس کے برعکس جب اسے معلوم ہوکہ یہ فیصلہ اسی جیسے کسی انسان کا ہے جو اپنی خواہش وشہوت کا پجاری ہے تو وہ اس فیصلہ پر راضی نہ ہوگا بلکہ وہ اپنے مطالبہ پر ڈٹے ہوئے، جھگڑے کو جاری رکھے گا اور اس صورت میں تنازعہ بھی کبھی ختم نہ ہوگا بلکہ اختلاف ہمیشہ برقراررہے گا تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے جب اپنے بندوں پر یہ واجب قراردیا ہے کہ وہ اس کی وحی کی روشنی میں اپنے متنازعہ امور کے فیصلے کریں تویہ بھی اس کی رحمت واحسان کا اظہار ہے، چنانچہ اس مسئلہ کو اللہ تعالیٰ نے بہت وضاحت وصراحت کے ساتھ اس طرح بیان فرمایا ہے:
﴿إِنَّ اللّٰه يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَىٰ أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُم بَيْنَ النَّاسِ أَن تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ ۚ إِنَّ اللّٰه نِعِمَّا يَعِظُكُم بِهِ ۗ إِنَّ اللّٰه كَانَ سَمِيعًا بَصِيرًا ﴿٥٨﴾ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللّٰه وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللّٰه وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللّٰه وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا﴾ (النساء۴ /۵۸۔۵۹)
|