واحكام الجان۔کے باب نمبر۵۱ میں بھی یہی ذکر کیا ہے۔
امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کےحوالہ سے یہ ذکر کیا جاچکا ہے کہ اطباء کے ائمہ وعقلاء اس کا اعتراف کرتے ہیں، وہ اس کا انکار نہیں کرتے ۔اس کا انکار کرنے والے جاہل، گھٹیا اورنچلے درجہ کے اطباء اورزندیقیت پر اعتقاد رکھنے والے لوگ ہیں۔لہذا قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ان حقائق کو جو ہم نے ذکر کیے ہیں جان لیں اور مضبوطی سے تھام لیں اورجاہل اطباء اوران لوگوں کی باتوں سے فریب خوردہ نہ ہوں جوعلم وبصیرت کے بغیر محض جاہل طبیبوں اورمعتزلہ وغیرہ بدعتیوں کی تقلید کی بنیاد پر ان کا انکار کرتے ہیں ۔واللّٰه المستعان!
نوٹ: ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث صحیحہ اوراہل علم کا جو کلام ذکر کیا ہے تویہ اس بات پر بھی دلالت کناں ہے کہ جن سے مخاطب ہونا، اسے وعظ ونصیحت کرنا، اسے اسلام قبول کرنے کی دعوت دینا اوراس کا اس دعوت کو قبول کرلینا، اس ارشاد باری تعالیٰ کے مخالف نہیں جسے اللہ تعالیٰ نے سورۂ ص میں حضرت سلیمان علیہ الصلوۃ والسلام کے واقعہ کے ضمن میں ذکر فرمایا ہے کہ انہوں نے یہ دعا کی تھی کہ :
﴿رَبِّ اغْفِرْ لِي وَهَبْ لِي مُلْكًا لَّا يَنبَغِي لِأَحَدٍ مِّن بَعْدِي ۖ إِنَّكَ أَنتَ الْوَهَّابُ﴾ (ص۳۸ /۳۵)
’’اے میرے پروردگار!میری مغفرت فرما اورمجھ کو ایسی بادشاہی عطاکرجو میرے بعد کسی کو شایان نہ ہو، بے شک تو بڑا عطا فرمانے والا ہے ۔‘‘
اسی طرح جن کو نیکی کا حکم دینا، برائی سے منع کرنا اوراگروہ انسان کے جسم سے نکلنے سے انکار کرے تواسے مارنا بھی آیت مذکورہ کے خلاف نہیں ہے بلکہ یہ تو واجب اورظالم کو ظلم سے روکنے، مظلوم کی مدد کرنے، نیکی کا حکم دینے اوربرائی سے منع کرنے کے قبیل سے ہے کیونکہ جن، درحقیقت انسان پر ظلم کررہا ہوتا ہے اورصحیح حدیث کے حوالہ سے قبل ازیں یہ بیان کیا جاچکا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شیطان کاگلا اس قدردبایاکہ اس کا لعاب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر بہنے لگااورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اگر میرے بھائی سلیمان کی دعا نہ ہوتی تو لوگ صبح کے وقت اس شیطان کو بندھا ہوا دیکھتے ۔‘‘صحیح مسلم میں حضرت ابوالدرداءرضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:’’اللہ کا دشمن ابلیس میرے پاس آگ کاایک انگارہ لایا تاکہ اسے میرے چہرے پر لگادے تومیں نے تین بارکہا:اعوذباللّٰه منك’’ ميں الله تعالیٰ سے تیری پناہ مانگتاہوں ۔‘‘پھرمیں نے کہا:’’میں تجھ پر اللہ تعالیٰ کی مکمل لعنت بھیجتا ہوں۔پھر میں نے ارادہ کیا کہ اسے پکڑ لوں لیکن اللہ کی قسم !اگرہمارے بھائی سلیمان کی دعا نہ ہوتی توصبح تک وہ یہاں بندھا ہوتا حتی کہ اہل مدینہ کے بچے اس کے ساتھ کھیلتے ۔‘‘چنانچہ اس مفہوم کی اوربھی بہت سی احادیث ہیں ۔اس سلسلہ میں اہل علم کے اقوال بھی بہت ہیں لیکن امید ہے کہ ہم نے جوکچھ ذکر کیا یہ کافی ہوگا اوراس میں طالب حق کے لیے قناعت کا سامان ہوگا۔اللہ تعالیٰ سے اس کے اسماءحسنی اورصفات علیا کے واسطہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اورسب مسلمانوں کو دین میں فقاہت واستقامت عطافرمائے اور ہمیں اقوال واعمال میں اصابت حق کی توفیق عطافرمائے اورہمیں اورسب مسلمانوں کو اس بات سے پناہ دے کہ ہم علم کے بغیر کوئی بات کریں یاکسی ایسی بات کا انکار کریں جس کا ہمیں علم نہ ہو، بے شک وہی کارساز وقادر ہے۔
وصلي اللّٰه علي عبده ورسوله نبينا محمد وعلي آله واصحابه واتباعه باحسان۔
|