’’اے پیغمبرو!پاکیزہ چیزیں کھاؤاورعمل نیک کرو ۔‘‘
اور(مومنوں کو حکم دیتے ہوئے )فرمایا:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ﴾ (البقرۃ۲ /۱۷۲)
’’اےاہل ایمان جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تم کو عطافرمائی ہیں، ان کو کھاؤ ۔‘‘
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کا ذکر کیا جو بہت لمباسفرکرتا ہے، پراگندہ حال اورغبارآلودہے، اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر دعاکرتا ہے یارب!یارب!لیکن اس کاکھانا حرام ہے، اس پیناحرام ہے، اس کا لباس حرام ہے، حرام مال ہی سے اس کی پرورش ہوئی تواس آدمی کی دعاکیسے قبول ہو؟
اے مسلمانو!اللہ سے ڈرو، اس کی نارضگی سے بچو، اس کے غضب کے اسباب سے اجتناب کروکہ جب اللہ تعالیٰ کے حرام کردہ امور کا ارتکاب کیا جائے تووہ بہت غیور ہے اورصحیح حدیث میں ہے کہ’’اللہ تعالیٰ سے بڑھ کرکوئی اور زیادہ غیرت والا نہیں‘‘ لہذا تم اپنےآپ کو اوراپنے اہل وعیال کو مال حرام اوراکل حرام سے بچاؤ، اپنے آپ کو اوراپنےاپنے اہل وعیال کو جہنم کی آگ سے بچاؤ، جو اس گوشت کی زیادہ مستحق ہے جو حرام سےپیدا ہوا ہے۔حرام کھانا دعاکی قبولیت میں حجاب بن جاتا ہے جیساکہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ثابت ہوتا ہے جو صحیح مسلم کے حوالہ سے ذکر کی گئی ہے نیز طبرانی میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس آیت کی تلاوت کی :
﴿يَا أَيُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَلَالًا طَيِّبًا﴾ (البقرۃ۲ /۱۶۸)
’’ لوگوجوچیزیں زمین میں حلال طیب ہیں، وہ کھاؤ ۔‘‘
توسعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:’’یارسول اللہ!دعافرمائیے کہ اللہ تعالیٰ مجھے مستجاب الدعاءبنادے ۔‘‘تونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اے سعد!اپنا کھانا پاک کرلومستجاب الدعوۃبن جاؤ گے، اس ذات گرامی کی قسم!محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )کی جان جس کے ہاتھ میں ہے کہ بندہ جب ایک حرام لقمہ اپنے پیٹ میں ڈالتا ہے تو چالیس دن تک اس کا کوئی عمل قبول نہیں ہوتا اورجس بندے کا گوشت مال حرام سے پلا بڑھا ہو، جہنم کی آگ ہی اس کے زیادہ مستحق ہے ۔‘‘
اس حدیث کو حا فظ ابن رجب رحمۃ اللہ علیہ نے ’’جامع العلوم والحکم ‘‘ میں امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالہ سے ذکر فرمایا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ کھانے کا پاک نہ ہونا اوررزق کا حلال نہ ہونا قبولیت دعامیں مانع ہے اوردعا کے دربار الٰہی تک پہنچنے میں حجاب ہے اورحرام کھانے والے کے لیے یہ کس قدروبال اورخسارے کا سوداہے ۔ نعوذباللہ من ذلک۔
اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ حکم دیا ہے کہ اپنےآپ کو اوراپنے اہل وعیال کو جہنم کی آگ سے بچاؤ یعنی جہنم کی آگ، اللہ تعالیٰ کے عذاب اوردیگر دردناک سزاؤں سے خود بھی نجات حاصل کرواورپنے اہل وعیال کوبھی اس سے نجات دلاؤ:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلَائِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا يَعْصُونَ اللّٰه مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ﴾ (التحریم۶۶ /۶)
’’اے اہل ایمان!اپنےآپ کو اوراپنے اہل وعیال کو (آتش)جہنم سے بچاؤجس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں اورجس پر سخت دل اورسخت مزاج فرشتے (مقرر) ہیں اللہ تعالیٰ انہیں جو حکم دیتا ہے اس کی نافرمانی نہیں کرتےاور وہ جو حکم دئیے جاتے ہیں بجالاتے ہیں ۔‘‘
مسلمانو!اپنے رب کے اس فرمان پر لبیک کہو، اس کے امر کی اطاعت بجالاؤ، اس کی نہی سے اجتناب کرواوراس کے
|