نمائندے وغیرہ ’’فیصلہ ‘‘ سے مراد یہ ہے کہ رشوت لینے والا رشوت دینے والے کی مرضی کے مطابق فیصلہ کردے تاکہ رشوت دینے والے کا مقصد پورا ہو جائے خواہ وہ حق پرہو یا باطل پر۔
برادران اسلام!رشوت ان کبیرہ گناہوں میں سے ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر حرام قراردیا ہےاوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر لعنت فرمائی ہے، لہذا واجب ہے کہ اس سے خود بھی اجتناب کیا جائے اورلوگوں کو بھی اس سے اجتناب کی تلقین کی جائے کیونکہ یہ فساد عظیم، گناہ کبیرہ اوربھیانک نتائج کا سبب بنتی ہے، یہ گناہ اورظلم کی ان باتوں سے ہے، جن پر تعاون کرنے سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے:
﴿وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ﴾ (المائدۃ۵ /۲)
’’اور(ديكهو)نیکی اور پرہیز گاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم کی باتوں میں مدد نہ کیا کرو ۔‘‘
الله تعالیٰ نے باطل طریقے سے لوگوں کے مال کھانے سے منع فرمایاہے:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَن تَكُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ﴾ (النساء۴ /۲۹)
’’اے ایمان والو!ایک دوسرے کا مال نا حق نہ کھاؤ ہاں اگر باہم رضامند ی سے تجارت کا لین دین ہو (اوراس سے مالی فائدہ ہوجائے تووہ جائز ہے ۔)‘‘
اورفرمایا:
﴿وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوا بِهَا إِلَى الْحُكَّامِ لِتَأْكُلُوا فَرِيقًا مِّنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالْإِثْمِ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ﴾ (البقرہ۲ /۱۸۸)
’’اورایک دوسرے کا مال نا حق نہ کھاؤ اور نہ اس کو (رشوت کے طورپر)حاکموں کے پاس پہنچاؤتاکہ لوگوں کے مال کا کچھ حصہ ناجائز طورپرکھاجاؤ اور(اسے)تم جانتے بھی ہو ۔‘‘
رشوت، باطل طریقے سے مال کھانے کی صورتوں میں سے انتہائی بدترین صورت ہے کیونکہ اس میں دوسرے انسان کو مال اس لیے دیا جاتا ہے تاکہ اسے حق سے منحرف کردیا جائے۔رشوت دینا، لینا اوردرمیان میں معاملہ کروانا سب حرام ہےاورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہےکہ ’’رشوت لینے والے، دینے والے اور دونوں کے درمیان واسطہ بننے والے پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے ۔‘‘(احمد، طبرانی)
اللہ تعالیٰ کی طرف سے لعنت کے معنی اس کے فیضان رحمت سے دھتکارنے اور دورکردینے کے ہیں۔۔۔نعوذباللہ من ذلک۔۔۔اوریہ سزاکسی کبیرہ گناہ ہی کی ہوسکتی ہے، رشوت کا تعلق ان حرام کاموں سے ہے جن کی حرمت کا قرآن میں بھی ذکر ہے اورسنت میں بھی اورحرام کھانے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کی مذمت کی اوراسےان کی بہت بڑی برائی قراردیا ہے، چنانچہ فرمایا:
﴿سَمَّاعُونَ لِلْكَذِبِ أَكَّالُونَ لِلسُّحْتِ﴾ (المائدہ۵ /۴۲)
’’(یہ)جھوٹی باتیں بنانے کے لیے جاسوسی کرنے والے اور(رشوت کا)حرام مال کھانے والے ہیں ۔‘‘
اورفرمایا:
|