اولا: ابراہیم نے اپنے مقالہ کے آغاز ہی میں یہ لکھا ہے کہ ’’بات یہ ہے کہ اقتصادی قوت کے بغیر اسلامی قوت حاصل نہیں ہوسکتی اوربینکوں کے بغیر اقتصادی قوت حاصل نہیں ہوسکتی اوربینک سود کے بغیر نہیں چل سکتے ۔‘‘
جواب : اس بات میں سے پہلے مقدمہ کو تسلیم کیا جاسکتا ہے کیونکہ ہر جگہ بسنے والے مسلمانوں پر یہ واجب ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے مقررکردہ طریقوں کے مطابق اپنی اسلامی اقتصادیات کی طرف توجہ مبذول کریں تاکہ ان کے لیے ان امورکو اداکرنا ممکن ہو جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے واجب قراردیئے ہیں اوران امو رکو وہ ترک کرسکیں جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے حرام قراردیئے ہیں، اقتصادی استحکام ہی سے ان کے لیے دشمن کے مقابلہ کی تیاری اوراس کی پرفریب اور خطرناک چالوں سے بچنا ممکن ہوگا۔ارشادباری تعالیٰ ہے:
﴿وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ﴾ (المائدہ۵ /۲)
’’اورنیکی اورپرہیز گاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مددکیا کرواورگناہ اورظلم کی باتوں میں مددنہ کیا کرو ۔‘‘
نیز فرمایا:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَوْفُوا بِالْعُقُودِ﴾ (المائدۃ۵ /۱)
’’اے ایمان والو!اپنے اقراروں(عہدوپیمان)کو پوراکرو ۔‘‘
مزید فرمایا:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنتُم بِدَيْنٍ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوهُ ۚ وَلْيَكْتُب بَّيْنَكُمْ كَاتِبٌ بِالْعَدْلِ ۚ وَلَا يَأْبَ كَاتِبٌ أَن يَكْتُبَ كَمَا عَلَّمَهُ اللّٰه ۚ فَلْيَكْتُبْ وَلْيُمْلِلِ الَّذِي عَلَيْهِ الْحَقُّ وَلْيَتَّقِ اللّٰه رَبَّهُ وَلَا يَبْخَسْ مِنْهُ شَيْئًا ۚ فَإِن كَانَ الَّذِي عَلَيْهِ الْحَقُّ سَفِيهًا أَوْ ضَعِيفًا أَوْ لَا يَسْتَطِيعُ أَن يُمِلَّ هُوَ فَلْيُمْلِلْ وَلِيُّهُ بِالْعَدْلِ ۚ وَاسْتَشْهِدُوا شَهِيدَيْنِ مِن رِّجَالِكُمْ ۖ فَإِن لَّمْ يَكُونَا رَجُلَيْنِ فَرَجُلٌ وَامْرَأَتَانِ مِمَّن تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَاءِ أَن تَضِلَّ إِحْدَاهُمَا فَتُذَكِّرَ إِحْدَاهُمَا الْأُخْرَىٰ ۚ وَلَا يَأْبَ الشُّهَدَاءُ إِذَا مَا دُعُوا ۚ وَلَا تَسْأَمُوا أَن تَكْتُبُوهُ صَغِيرًا أَوْ كَبِيرًا إِلَىٰ أَجَلِهِ ۚ ذَٰلِكُمْ أَقْسَطُ عِندَ اللّٰه وَأَقْوَمُ لِلشَّهَادَةِ وَأَدْنَىٰ أَلَّا تَرْتَابُوا ۖ إِلَّا أَن تَكُونَ تِجَارَةً حَاضِرَةً تُدِيرُونَهَا بَيْنَكُمْ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَلَّا تَكْتُبُوهَا ۗ وَأَشْهِدُوا إِذَا تَبَايَعْتُمْ ۚ وَلَا يُضَارَّ كَاتِبٌ وَلَا شَهِيدٌ﴾ (البقرۃ۲ /۲۸۲)
’’اے ایمان والو! جب تم آپس میں کسی میعاد معین کے لیے قرض کا معاملہ کرنے لگوتواس کو لکھ لیا کرواورلکھنے والے کو چاہئے کہ (کسی کا نقصان نہ کرے بلکہ)تمہارا آپس کا معاملہ انصاف سے لکھے اورلکھنے سے انکاربھی نہ کرے، جس طرح اللہ تعالیٰ نے اسے سکھایا ہے پس اسے بھی لکھ دینا چاہئےاورجس کے ذمہ حق ہووہ (یعنی مقروض )لکھوائےاوراللہ تعالیٰ سے ڈرے جو اس کا پروردگارہے اورحق میں سے کچھ کم نہ کرے(یعنی اس کے ذمہ جو قرض ہے وہ پورالکھوائے، کم نہ لکھوائے۔۔۔۔۔)ہاں اگرسودادست بدست ہوجو تم آپس میں لیتے دیتے ہو، تواگر (ایسے معاملے کی)دستاویزنہ لکھو توتم پر کچھ گناہ نہیں اورجب خریدو فروخت کیا کرو توبھی گواہ بنالیا کرواورکاتب دستاویزاورگواہ(معاملہ کرنے والوں کا)کسی طرح نقصان نہ کریں ۔‘‘
اورفرمایا:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَن تَكُونَ تِجَارَةً عَن
|