’’اورنیکی اور پرہیز گاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم کی باتوں میں مدد نہ کیا کرو ۔‘‘
اورصلوۃ وسلام بھیجتاہوں اللہ تعالیٰ کے نبی اوررسول کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر جنہوں نے یہ ارشادفرمایا کہ’’مومن مومن کے لیے ایک دیوار کی مانند ہے کہ جس کاایک حصہ دوسرے کے لیے مضبوطی کاباعث ہوتا ہے۔‘‘وبعد۔۔۔۔
اسلام کے حکیمانہ مقاصد اوربلند پایہ اغراض واہداف میں سے ایک بات یہ بھی ہے کہ تمام فرزندان اسلام ایک جسم کے مانند ہوں اوروہ ایک دوسرے کے دکھ سکھ اورغمی وخوشی کو اپنا دکھ سکھ اوراپنی غمی وخوشی سمجھیں جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کو اس مثال سے سمجھایاکہ’’باہمی محبت، رحم دلی اورشفقت کے اعتبار سےمسلمانوں کی مثال ایک جسم کی مانند ہے کہ اگرجسم کا کوئی ایک عضو مبتلائے دردہو توبخار اوربیداری کے باعث ساراجسم بے قرارہوجاتا ہے ۔‘‘اسلام کے ابتدائی دور میں مسلمانوں نے اس حقیقت کو سمجھ لیا تھا جس کی وجہ سے انہوں نے اپنے مال کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں بےدریغ صرف کیا اورضرورت کے باوجود اپنی ذات پر اپنے بھائیوں کوترجیح دی۔اللہ کی راہ میں اپنا مال خرچ کرتے ہوئے وہ ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے رہے کہ ایک اگرکوئی اپنا آدھا مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں صرف کرتا ہے تو دوسرا اپنا سارامال اللہ تعالیٰ کی محبت کی خاطر نثار کردیتا ہے۔ان پاکباز لوگوں نے اپنے بھائیوں کو ٹھکانا دیا، ان کی ہر طرح کی مدد کی، اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنا مال بے دریغ قربان کردیا، اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنے مالوں اورجانوں سے جہاد کیا، اللہ تعالیٰ نے بھی ان سے ان کی جانوں اورمالوں کو جنت کی ابدی نعمتوں کے عوض خرید لیا۔انہوں نے بھی بڑے اخلاص اوربڑی خوش دلی کے ساتھ اپنا سب کچھ اپنے رب کی بارگاہ اقدس میں پیش کردیا، ارشادباری تعالیٰ ہے:
﴿إِنَّ اللّٰه اشْتَرَىٰ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُم بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ﴾ (التوبۃ۹ /۱۱۱)
’’بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے مومنوں سے ان کی جانیں اوران کے مال اس بات کے عوض خرید لیے ہیں کہ ان کوبہشت ملے گی ۔‘‘
نیزفرمایا:
﴿انفِرُوا خِفَافًا وَثِقَالًا وَجَاهِدُوا بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللّٰه ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ﴾ (التوبۃ۹ /۴۱)
’’ (اللہ کے راستے میں)نکلو خواہ ہلکے ہویا بوجھل اوراللہ کے رستے میں مال اورجان سےجہاد کرو۔یہی تمہارے حق میں بہتر ہے بشرطیکہ تم سمجھو ۔‘‘
ہمارے اسلاف اوران کامل مسلمانوں نے اس بات کو سمجھ لیا تھا جس کی وجہ سے انہوں نےابدی وسرمدی زندگی کواس عارضی وفانی زندگی پر ترجیح دی، ایثار وقربانی میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا، قول کی اپنے عمل سے تائید کی، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عزوشرف، مجددبزرگی اوردنیا وآخرت ہر اعتبار سےوہ بلندو بالا اورارفع واعلی تھے انہوں نے انسانیت اورعدل وانصاف کادرس دیا اور لوگوں کو اپنے عمل سے محبت وشفقت، ہمدردی وغمگساری اورخیر وبھلائی کا معنی ومفہوم سمجھایا وہ دنیا کا مرکز ومحور، دنیا کا جھومر اوربعد میں آنے والے تمام مسلمانوں کے لیے نمونہ بن گئے تھے لیکن افسوس کے آج مسلمانوں کی اکثریت اپنے ان عظیم اسلاف کی راہ سے دور ہوگئی ہے اوران عظیم مقاصد اورمقدس جذبات سے تہی دامن ہے جوکہ ان کے اسلاف کاطرہ امتیاز تھے حالانکہ یہ مال ودولت کی فراوانی، دنیوی زندگی کی خوش حالی اوردنیا کی تمام نعمتوں سے بہرہ ورہیں لیکن ان کے دلوں میں ایثار اورقربانی کے جذبات ماند پڑگئے ہیں، وہ بخل اور
|