کرایہ ہوں توسال مکمل ہونے پر ان کے کرایہ پر زکوۃ ہوگی، عمارتوں پر زکوۃ نہیں ہوگی کیونکہ وہ برائے فروخت نہیں ہیں۔اسی طرح وہ گاڑیا ں جو ٹیکسی کے طور پر چلائی جاتی ہوں ان میں بھی زکوۃ نہیں ہے کیونکہ ان کے مالکان نے انہیں استعمال کے لیے خریدا ہے ۔اگر ٹیکسی یا دیگر سامان کے مالکان کے پاس نصاب کے برابر نقدی ہو تو اس میں سال مکمل ہونے پر زکوۃ واجب ہوگی خواہ اس نقدی کو نفقہ کے لیے یا شادی کے لیے یا جائیداد خریدنے کے لیے یا قرض اداکرنے کے لیے یا دیگر مقاصد کے لیے جمع کیا گیا ہو کیونکہ اس طرح کے مال میں وجوب زکوۃ پردلالت کرنے والی ادلہ شرعیہ کے عموم کا یہی تقاضا ہے۔
علماءکے اقوال میں سے صحیح قول یہ ہے کہ قرض بھی زکوۃ سے مانع نہیں ہے جیسا کہ مذکورہ تفصیل واضح ہے!
اسی طرح جمہورعلماء کے نزدیک یتیموں اورمجنونوں (پاگلوں)کے مال میں بھی زکوۃ واجب ہے، جب وہ (مال)نصاب کوپہنچ جائے اوراس پر سال گزر جائے توان کے وارثوں پر واجب ہوگا کہ سال گزرنے پر وہ ان کی طرف سے ان کے مال سے زکوۃ ادا کریں کیونکہ عموم ادلہ کا یہی تقاضا ہے مثلا حدیث معاذ میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب انہیں یمن بھیجا توفرمایا:’’بےشک اللہ تعالیٰ نے ان کے اموال پر زکوۃ کو فرض قراردیا ہے، جسے ان کے اغنیاء سے لے کر ان کے فقراء میں تقسیم کردیا جائے گا۔‘‘
زکوۃ، اللہ تعالیٰ کا حق ہے، لہذا محض محبت کی خاطر کسی غیر مستحق کو زکوۃ دینا جائز نہیں اورنہ یہ جائز ہے کہ زکوۃ کو کسی نفع کے حصو ل یا نقصان کے ازالہ کے لیے استعمال کیا جائے اورنہ یہ جائز ہے کہ اسے مال بچانے یا مال سے مذمت دورکرنے کے لیے استعمال کیا جائے۔ہرمسلمان کے لیے یہ واجب ہے کہ وہ زکوۃ کو صرف مستحقین میں اس لیے تقسیم کرے کہ وہ اس کے اہل ہیں، کسی اورغرض کے لیے تقسیم نہ کرے اورپھر زکوۃ کو خوشدلی کے ساتھ، اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے خرچ کرے تاکہ وہ اپنے فرض سے عہدہ برآہوکر، بےپایاں اجروثواب کا مستحق قرارپائے اوراللہ تعالیٰ اسے اس خرچ کیے ہوئے مال کا نعم البدل بھی عطافرمائے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مصارف زکوۃ کی وضاحت کرتے ہوئے ارشادفرمایاہے:
﴿إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللّٰه وَابْنِ السَّبِيلِ ۖ فَرِيضَةً مِّنَ اللّٰه ۗ وَاللّٰه عَلِيمٌ حَكِيمٌ﴾ (التوبۃ۹ /۶۰)
’’(صدقات(یعنی زکوۃ وخیرات)تو مفلسوں اورمحتاجوں اورکارکنان صدقات کا حق ہے اوران لوگوں کا جن کی تالیف قلب منظورہے اورغلاموں کے آزادکرانے میں اورمقروضوں کے قرض اداکرنے میں اوراللہ کی راہ میں اور مسافروں(کی مدد)میں(بھی یہ مال خرچ کرنا چاہئے یہ حقوق)اللہ کی طرف سے مقررکردئیے گئے ہیں اوراللہ جاننے والا (اور)حکمت والا ہے)۔‘‘
اس آیت کریمہ کواللہ تعالیٰ نے اپنے دوعظیم ناموں کے ساتھ جو ختم کیا ہے تواس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ اشارہ ہے کہ وہ اپنے بندوں کے حالات کو خوب جانتا ہے کہ ان میں سے کون زکوۃ کا مستحق ہےاورکون نہیں اس نے جو شریعت نازل فرمائی اورجو احکام مقررفرمائے، ان میں وہ حکیم ہے ۔وہ تمام اشیاء کو ان کے اصل مقام پر ہی رکھتا ہے خواہ بعض لوگوں پر بعض اسرارحکمت مخفی رہیں۔وہ علیم وحکیم ہے اس لیے
|