دونوں ہاتھوں سے بھری ہوئی چارلپوں کے بقدرہوتا ہے، ان پر عشریعنی دسواں حصہ واجب ہے بشرطیکہ کھجوروں اورفصلوں وغیرہ کو بلا کلفت بارشوں، نہروں اورجاری چشموں وغیرہ سے سیراب کیا جاتا ہواوراگرانہیں محنت کر کے اورخرچہ کرکے کنوؤں اورڈیموں سے سیراب کیا جاتا ہو توپھر ان میں نصف عشر یعنی بیسواں حصہ واجب ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث سےیہ ثابت ہے۔
چرنے والے پالتوجانوروں مثلا اونٹ، گائے اوربھیڑ بکری وغیرہ کی تفصیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح احادیث میں موجود ہے ۔اہل علم سے اس کی تفصیل معلوم کی جاسکتی ہے۔اگراس وقت ہمارے پیش نظر اختصار نہ ہوتا تو اتمام فائدہ کے لیے ہم بھی یہاں اس کی تفصیل بیان کردیتے لیکن اختصار کی وجہ سے ہم اسے یہاں تفصیلا بیان نہیں کرسکتے۔
چاندی کا نصاب ایک سو چالیس مثقال ہے اور سعودی عرب کی کرنسی میں اس کی مقدار چھپن ریال ہے جب کہ سونے کا نصاب بیس مثقال ہے اورسعودی پیمانے میں اس کی مقدار۷ /۳ /۱۱(اگنی)اشرفی ہے جب کہ گرام کے حساب سے ۹۲گرام ہے، جو شخص سونے اورچاندی یا دونوں میں سے ایک کے نصاب کا مالک ہو اور اس پر ایک سال گزر جائے تواس میں چالیسواں حصہ زکوۃ فرض ہے، نفع اصل کے تابع ہوگا اوراس کے لیے الگ سے نیا سال شمار کرنے کی ضرورت نہ ہوگی جیساکہ پالتوجانوروں کے دوران سال پیدا ہونے والے بچے بھی اپنے اصل کے تابع ہوتے ہیں، لہذا ان کے لیے بھی الگ سے نیا سال شمار کرنے کی ضرورت نہ ہوگی بشرطیکہ اصل جانور نصاب کے مطابق ہوں ۔
کرنسی نوٹ جن کے ساتھ آج کل لوگ لین دین کرتے ہیں، ان کا حکم بھی وہی ہے جو سونے اورچاندی کا ہے خواہ یہ درہم ہوں یا دینار، ڈالر ہوں یا ان کاکوئی اورنام رکھ لیا گیا ہوجب ان کی قیمت چاندی اورسونے کے نصاب کے مطابق ہوگی اوراس پر ایک سال گزر جائے گا تواس پر بھی زکوۃ واجب ہوگی ۔عورتوں کے سونے یا چاندی کے زیورات بھی نقدی میں شامل ہوں گے خصوصا جب وہ نصاب کے مطابق ہوں اوران پر ایک سال گزر جائے توان میں بھی زکوۃ واجب ہے خواہ انہیں استعمال کیا جاتا ہویا نہ کیا جاتا ہو۔علماء کے صحیح قول کے مطابق ان میں زکوۃ واجب ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کے الفاظ کے عموم کا یہی تقاضا ہے کہ’’ہر وہ سونے یا چاندی کا مالک جو زکوۃ ادانہیں کرتا توروزقیامت اس کے سونے اورچاندی کو چوڑے پتھروں کی صورت میں ڈھال کر جہنم کی آگ میں گرم کیا جائے گا۔۔۔۔۔ ۔‘‘الخ۔ایک حدیث میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عورت کے ہاتھ میں سونے کے دو کنگن دیکھے توفرمایا:’’کیا تم ان کی زکوۃ ادا کرتی ہو؟‘‘ اس نے کہا جی نہیں!فرمایا :’’کیا تجھے یہ بات اچھی لگتی ہے کہ ان کے بجائے اللہ تعالیٰ تجھے روز قیامت جہنم کی آگ کے کنگن پہنائے؟‘‘ اس نے انہیں اتاردیا اورکہا کہ یہ اللہ اوراس کےرسول کے لیے ہیں۔(ابوداود، نسائی اور اس کی سند حسن ہے)
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سونے کی پازیبیں پہنا کرتی تھی، انہوں نے عرض کیا :یا رسول اللہ !کیا یہ کنز ہیں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جو(مال)نصاب کو پہنچ جائے اوراس کی زکوۃ اداکردی جائے تووہ کنز نہیں ہے ۔‘‘اس مفہوم کی اوربھی (بہت سی)احادیث ہیں ۔
جہاں تک سامان تجارت کا تعلق ہے تو سال کے آخر میں اس کی قیمت لگائی جائے اورکل قیمت کا چالیسواں حصہ بطورزکوۃ اداکردیا جائے خواہ اس کی قیمت ا س کے ثمن کے مثل ہویا اس سے کم وبیش کیونکہ حدیث سمرہ میں ہے کہ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں یہ حکم دیا کرتے تھے کہ ہم سامان تجارت کی بھی زکوۃ اداکریں ۔‘‘(ابوداود)اس میں اراضی، عمارتیں، گاڑیاں، پانی کی موٹریں اورہروہ سامان داخل ہے جوبرائے تجارت ہو اوروہ عمارتیں جو برائے فروخت نہیں بلکہ برائے
|