خوف وتقویٰ الٰہی جن کاشعار ہے۔آمین!
سلام عليكم ورحمة اللّٰه وبركاته_اما بعد:
مجھےیہ خبر پہنچی ہےکہ بہت سےمسلمان نماز باجماعت ادا کرنےمیں سستی کرتےہیں اوربعض علماءنےاس سلسلہ میں جو سہولت بیان کی ہےاس سے استدلال کرتےہیں۔مجھ پر یہ واجب ہےکہ میں اس مسئلہ کی اہمیت ونزاکت کوبیان کروں۔کسی بھی مسلمان کو یہ بات زیب نہیں دیتی کہ وہ اس معاملہ میں کوتاہی کرےجس کی عظمت شان کو اللہ تعالیٰ نےاپنی کتاب میں اوراس کےرسول کریم علیہ من ربہ افضل الصلوٰۃ والتسلیم نے اپنی سنت مطہرہ میں بیان فرمایا ہو۔اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب کریم میں نماز کا ذکر بڑی کثرت سے کیا ہے، اس کی شان کو بہت عظیم قرار دیاہے، اس کی حفاظت کرنےاوراسےباجماعت اداکرنےکاحکم دیاہےاوربتایاہےکہ اس میں کوتاہی وسستی کرنا منافقوں کی نشانی ہے، چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَىٰ وَقُومُوا لِلَّـهِ قَانِتِينَ﴾ (البقرۃ۲ /۲۳۸)
’’(مسلمانو!)سب نمازیں خصوصا درمیانی نماز(یعنی نمازعصر)پورے التزام کےساتھ اداکرو۔‘‘
توجوشخص نمازکوکم اہمیت دیتااوراپنےمسلمان بھائیوں کےساتھ مل کر باجماعت ادانہیں کرتاتواس کےبارےمیں یہ کیونکر سمجھاجائےکہ اس نےنمازکی حفاظت اوراس کی تعظیم کی ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَ﴾ (البقرۃ۲ /۴۳)
’’اورنمازپڑھاکرواورزکوٰۃدیاکرواور(اللہ کےآگے)جھکنےوالوں کےساتھ جھکاکرو ۔‘‘
یہ آیت کریمہ نص ہےکہ نمازیوں کےساتھ شریک ہوکر باجماعت اداکرناواجب ہےاوراگرمقصودصرف نمازقائم کرناہوتاتوپھر اس آیت کریمہ کودرج ذیل الفاظ کےساتھ ختم کرنےکی کوئی واضح مناسبت نہ ہوتی کہ
﴿وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَ﴾ (البقرۃ۲ /۴۳)
کیونکہ اقامت نمازکاحکم تواس آیت کےشروع میں بھی ہے، نیزارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَإِذَا كُنتَ فِيهِمْ فَأَقَمْتَ لَهُمُ الصَّلَاةَ فَلْتَقُمْ طَائِفَةٌ مِّنْهُم مَّعَكَ وَلْيَأْخُذُوا أَسْلِحَتَهُمْ فَإِذَا سَجَدُوا فَلْيَكُونُوا مِن وَرَائِكُمْ وَلْتَأْتِ طَائِفَةٌ أُخْرَىٰ لَمْ يُصَلُّوا فَلْيُصَلُّوا مَعَكَ وَلْيَأْخُذُوا حِذْرَهُمْ وَأَسْلِحَتَهُمْ﴾ (النساء۴ /۱۰۲)
’’اور(اےپیغمبر!)جب تم ان(مجاہدین کےلشکر)میں ہواوران کونمازپڑھانےلگوتوچاہئےکہ ان کی ایک جماعت تمہارےساتھ مسلح ہوکرکھڑی رہے۔جب وہ سجدہ کرچکیں توپرےہوجائیں پھر دوسری جماعت جس نےنمازنہیں پڑھی(ان کی جگہ)آئےاورہوشیاراورمسلح ہوکرتمہارےساتھ نماز اداکرے!‘‘
اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ نماز باجماعت اداکرنے کو تواللہ سبحانہ وتعالیٰ نے حالت جنگ میں بھی واجب قراردیاہے توحالت امن میں اس کے وجوب کااندازہ خود فرمالیجئے، اگرکسی کوجماعت کے ساتھ اداکرنے کے سلسلہ میں رخصت ہوتی تو ا ن لوگوں کو ہوتی جودشمن کے بالمقابل صف آراہوتے ہیں اورجنہیں یہ خطرہ ہوتا ہے کہ دشمن کسی وقت بھی ان پر حملہ آورہوسکتا ہے۔لیکن جب ان مجاہدین کے لیے بھی رخصت نہیں ہے تومعلوم ہوا کہ نماز کو باجماعت اداکرنا نہایت اہم واجب ہے اورکسی کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ نماز باجماعت اداکرنے میں کوتاہی کرے۔صحیحین میں حضرت ابوہریرہ
|