قیامت کے دن وہ (ایک ایک)ان کو بتائے گا۔بے شک اللہ ہر چیز سے واقف ہے ۔‘‘
کے معنی یہ ہیں کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ اپنے تمام بندوں کے حالات سے آگاہ ہے خواہ وہ کہیں بھی ہوں، وہ ان کے کلام اورمخفی باتوں اورسرگوشیوں کو سنتا اوران کے اعمال کو جانتا ہے ۔اللہ تعالیٰ کے علم اوران تمام باتوں کے سننے کے ساتھ ساتھ اس کی طرف سے مقررکردہ فرشتے کراما کاتبین ان سب باتوں کو لکھتے بھی جارہے ہیں۔اہلسنت والجماعت کے نزدیک اس آیت کریمہ میں مذکور‘‘معیت’’سے مراد‘‘معیت علم’’ہے یعنی اللہ تعالیٰ اپنے علم کے ساتھ ان کے پاس ہے، ان کا احاطہ کیے ہوئے ہے، ان کو دیکھ رہا ہے، اپنی مخلوق سے مطلع اورباخبر ہے کہ مخلوق کا کوئی کام بھی اس سے مخفی نہیں رہ سکتا اوراس کے ساتھ ساتھ وہ اپنی تمام مخلوق سے اوپر ہے، عرش پر اس طرح مستوی ہے جس طرح اس کے جلال اور عظمت کے لائق ہے اوروہ اپنی صفات میں مخلوق کے ساتھ مشابہت نہیں رکھتا، جس طرح کہ اس نے خود ہی ارشاد فرمایا ہے:
﴿لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ ۖ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ﴾ (الشوری۴۲ /۱۱)
’’اس جیسی کوئی چیز نہیں اوروہ سنتادیکھتا ہے ۔‘‘
پھر وہ روز قیامت اپنے بندوں کو ان تمام اعمال کی خبر دے گا جو انہوں نے دنیا کی زندگی میں کیے تھے کیونکہ وہ ہر چیز کو جانتا اورہرچیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔وہ عالم الغیب ہے کہ آسمانوں اورزمینوں کی کوئی ذرہ بھر چیز بھی اس کے علم سے باہر نہیں بلکہ ہرچھوٹی بڑی چیز کتاب مبین میں لکھی ہوئی ہے۔
باقی رہی اس باندی والی حدیث جس کے آقا نے اسے مارنے کے کفارہ کے طور پر آزادکرنا چاہا تھا تونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ اللہ کہاں ہے؟تو اس نے کہا ’’آسمان میں ۔‘‘آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’میں کون ہوں؟‘‘ تو اس نے جواب دیا کہ’’آپ اللہ کے رسول ہیں ۔‘‘تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’اسے آزادکردویہ مومنہ ہے ۔‘‘تویہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ مخلوق سے بلند ہے، نیز اس بات کا اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا اعتراف ایمان کی دلیل ہے۔
یہ ان آیات کے مختصر معنی ہیں جن کے بارے میں آپ نے پوچھا تھا، ان آیات اوران کے ہم معنی ان صحیح احادیث کے بارے میں جو اللہ تعالیٰ کے اسماء وصفات پردلالت کناں ہیں، مسلمان پر واجب ہےکہ وہ مسلک اہلسنت والجماعت کو اختیار کرے اوروہ یہ کہ ان آیات واحادیث پر ایمان لایا جائے، جن امور پر یہ دلالت کرتی ہیں ان کی صحت کا اعتقاد رکھاجائےاوراللہ تعالیٰ کے لیے انہیں اس طرح مانا جائے جس طرح اس کی ذات گرامی کے لائق ہے اوران میں تحریف، تعطیل، تکییف اور تمثیل کی روش کو اختیار نہ کیاجائے کہ یہی وہ صحیح مسلک ہے جس پر سلف صالح گامزن تھے اورسب کااس کی صحت پر اتفاق تھا۔اسی طرح ہر مسلمان جو اپنے لیے سلامتی چاہتا ہے، پریہ بھی واجب ہے کہ وہ ان امورمیں واقع ہونے سے اجتناب کرے جو اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا باعث ہیں اوران اہل ضلالت کے راستے سےدورہوجائے جو اللہ تعالیٰ کی صفات کی تاویل کرتے اوران کی نفی کرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ ان ظالموں اورجاہلوں کی باتوں سے بہت ہی بلند وبالااورارفع واعلی ہے۔ہم آپ کے لیے’’ العقیدۃ الواسطیۃ‘‘از شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ مع شرح ازشیخ محمد خلیل ہر اس کا ایک نسخہ بھی ارسال کررہے ہیں کیونکہ اس کتاب میں اس موضوع سے متعلق خاصی مفصل بحث ہے جس کے بارے میں آپ نے سوال کیا ہے۔ہم اللہ تعالیٰ کے حضور دعاکرتے ہیں کہ وہ ہم سب کوعلم نافع اوراس کے مطابق عمل کی توفیق عطا فرمائے، نیز ہم سب کو اپنی رضا کے مطابق عمل کی توفیق ارزاں فرمائے۔
|