’’اور جب وہ لوگ اپنے قلم(بطور قرعہ)ڈال رہے تھے تو آپ ان کے پاس نہیں تھے۔‘‘
﴿وَمَا كُنْتَ لَدَيْهِمْ إِذْ يَخْتَصِمُونَ﴾ (آل عمران۳ /۴۴)
’’اورنہ اس وقت آپ ان کے پاس تھے جب وہ آپس میں جھگڑرہے تھے ۔‘‘
ان آیات کے ان کے نزدیک معنی یہ ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو ان موقعوں پر ان کے پاس موجود نہ تھے لیکن اللہ تعالیٰ بذاتہ ان کے پاس موجود تھا کیونکہ وہ ہر جگہ موجود ہے۔
قائل نے چونکہ یہ بات کرکے سوء فہمی کا مظاہرہ کیا اور ایک زبردست غلطی کا ارتکاب کیا ہے جو اس صحیح عقیدہ کے خلاف ہے، جسے قرآن وسنت نے پیش کیا اورسلف امت نے جسے بطورعقیدہ اختیار کیا تھا، لہذامیں نے مناسب سمجھا کہ حق کو بیا ن کردوں اوراس امر عظیم کے بارے میں قائل پر جو بات مخفی رہ گئی ہے اسے واضح کردوں کہ اس کا تعلق اللہ تعالیٰ کے اسماء وصفات سے ہے ۔اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی صفات کے بارے میں صرف وہی کہا جائے گاجواس نے اپنی صفات کے بارے میں خود فرمایا ہے یا جو اس کی صفات کے بارے میں اس کے رسول مقبول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔صفات باری تعالیٰ کو تکییف و تمثیل اورتحریف وتعطیل کے بغیر اس طرح مانا جائے گا جس طرح اللہ جل جلالہ کی ذات گرامی کے شایان شان ہے جیسا کہ اس کا ارشاد گرامی ہے:
﴿لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ ۖ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ﴾ (الشوری۴۲ /۱۱)
’’اس جیسی کوئی چیز نہیں اوروہ سنتادیکھتا ہے ۔‘‘
یہ بات قرآن وسنت سے ثابت ہے اوراس پر تمام سلف امت کا اجماع ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ اپنی مخلوق کے اوپر اوران سے جدا ہے، وہ اپنے عرش پر مستوی ہے اوراستواء اس طرح ہے جس طرح اس کی ذات گرامی کے شایان شان ہے ۔اس کا استواء اپنی مخلوق کے استواء سے مشابہت نہیں رکھتا ۔ہاں البتہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ اپنے علم کے اعتبار سے اپنی مخلوق کے ساتھ ہے، اپنی مخلوق کی کوئی بات اس سے مخفی نہیں ۔چنانچہ قرآن حکیم نے نہایت بلیغ اورواضح عبارتوں میں اسے بیان فرمایا اورصحیح اورصریح احادیث مبارکہ سے بھی یہی بات ثابت ہے۔قرآن مجید کے وہ دلائل حسب ذیل ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمان میں، اپنی مخلوق سے اوپر اوراپنے عرش پر مستوی ہے:
﴿إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ﴾ (فاطر۳۵ /۱۰)
’’اس کی طرف پاکیزہ کلمات چڑھتے ہیں او رنیک عمل ان کوبلند کرتے ہیں ۔‘‘
اللہ تعالیٰ کے مزید فرامین: ﴿إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ﴾ (آل عمران۳ /۵۵)
’’(عیسی)میں تمہاری دنیا میں رہنے کی مدت پوری کرکے تمہیں اپنی طرف اٹھالوں گا ۔‘‘
﴿تَعْرُجُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ إِلَيْهِ﴾ (المعارج ۷۰ /۴)
’’فرشتے اورروح اس کی طرف چڑھتے ہیں ۔‘‘
﴿ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ ۚ الرَّحْمَـٰنُ﴾ (الفرقان۲۵ /۵۹)
’’پھرعرش پر مستوی ہوا(وہ جس کا نام رحمن یعنی)بڑامہربان(ہے) ۔‘‘
﴿أَأَمِنتُم مَّن فِي السَّمَاءِ أَن يَخْسِفَ بِكُمُ الْأَرْضَ﴾ (الملک۶۷ /۱۶)
|