امید ہے آپ اس کی وضاحت فرمائیں گے؟
جواب : امت محمدیہ کے افراد، جن کا عرب وعجم سے تعلق تھا، نہ پڑھتے اورنہ لکھتے تھے، اسی وجہ سے انہیں امی کے نام سے موسوم کیا گیا ۔ان میں جو لوگ لکھنا پڑھنا جانتے تھے، ان کی تعداددوسروں کے مقابلہ میں بہت ہی کم تھی ۔ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے جیسا کہ ارشادباری تعالیٰ ہے:
﴿وَمَا كُنتَ تَتْلُو مِن قَبْلِهِ مِن كِتَابٍ وَلَا تَخُطُّهُ بِيَمِينِكَ ۖ إِذًا لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُونَ﴾ (العنکبوت۲۹ /۴۸)
’’اورآپ اس سے پہلے کوئی کتاب نہیں پڑھتے تھے اورنہ اسے اپنے ہاتھ سے لکھ ہی سکتے تھے ایسا ہوتا تواہل باطل ضرورشک کرتے ۔‘‘
یہ نبی علیہ الصلوۃ والسلام کی نبوت ورسالت کی صداقت کی ایک عظیم الشان دلیل ہے کہ آپ لوگوں کے پاس ایک ایسی مقدس کتاب لے کرتشریف لائے جس کے مقابلہ کی عرب وعجم تاب نہ لاسکے کیونکہ یہ کتاب پاک تواللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کے ذریعہ نازل فرمائی تھی اوراس وحی الٰہی کو روح الامین حضرت جبرائیل علیہ السلام لاتے رہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سنت مطہرہ اورپہلے لوگوں کے علوم میں سے بہت سے علوم بھی بذریعہ وحی نازل فرمائے، یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ماضی کے بھی بہت سے حالات وواقعات بیان فرمائے اوربہت سے ایسے حالات وواقعات کی بھی خبر دی جو آخری زمانہ میں یا قیامت ک دن ظہور پذیر ہوں گے نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت، دوزخ، اہل جنت اوراہل جہنم کے بھی بہت سے حالات بتائے اوراس طرح اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دوسروں پر بزرگی اورفضیلت عطافرمائی اورلوگوں کو بتایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے کس قدر بلندو بالااورارفع واعلی مقام ومرتبہ پر فائز فرمایاہے۔اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ کا ذکر کرتے ہوئے اس کے جس وصف اميت کا ذکر کیا ہے اس سے یہ مقصود نہیں ہے کہ اميتکو باقی رہنے دیا جائے بلکہ اس سے مقصود توصرف امرواقعہ اورصورت حال کا بیان ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اس امت کی ہدایت ورہنمائی کے لیے اپنے محبوب پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایاتھا تواس وقت یہ امت ناخواندہ تھی، اس سے ناخواندگی کی ترغیب مقصود نہیں ہے کیونکہ کتاب وسنت کے صفحات پڑھنے لکھنے کی ترغیب اورناخواندگی کے خاتمہ کے حکم سے لبریز ہیں، چنانچہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:
﴿قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ﴾(الزمر۳۹ /۹)
’’کہوبھلاجولوگ علم رکھتےہیں اورجونہیں رکھتےدونوں برابرہوسکتےہیں ۔‘‘
نیزفرمایا:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قِيلَ لَكُمْ تَفَسَّحُوا فِي الْمَجَالِسِ فَافْسَحُوا يَفْسَحِ اللّٰه لَكُمْ ۖ وَإِذَا قِيلَ انشُزُوا فَانشُزُوا يَرْفَعِ اللّٰه الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ﴾(المجادلۃ۵۸ /۱۱)
’’اےاہل ایمان!جب تم سےکہاجائےکہ مجلس میں کھل کربیٹھوتوکھل کربیٹھاکرو(یعنی کھلادائرہ بناکربیٹھاکروتاکہ زیادہ سےزیادہ لوگ وہاں بیٹھ سکیں)۔(واللہ اعلم)، اللہ تم کوکشادگی بخشےگااورجب کہاجائےکہ اٹھ کھڑےہوتواٹھ کھڑےہواکرو، جولوگ تم میں سےایمان لائےہیں اورجن کوعلم عطاکیاگیاہے، اللہ ان کےدرجےبلندکردےگا ۔‘‘
اورفرمایا:
|