’’ پھر ان کے بعد ایسے ناخلف ان کے جانشین ہوئے جنہوں نے نماز کو ضائع کردیا اورخواہشات نفسانی کے پیچھے لگ گئے، سوعنقریب ان کو گمراہی(کی سزا)ملے گی۔‘‘
نیز فرمایا:
﴿فَوَيْلٌ لِّلْمُصَلِّينَ ﴿٤﴾ الَّذِينَ هُمْ عَن صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ﴾ (الماعون۱۰۷ /۴۔۵)
’’تو ایسے نمازیوں کےلیے(جہنم کی وادی ویل یا)خرابی ہےجو اپنی نماز سےغافل رہتےہیں ۔‘‘
اس مضمون کی اوربھی بہت سی آیات ہیں۔اسی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کارشاد گرامی ہے کہ ’’وہ عہد جوہمارے اوران کے مابین ہے، نمازہے، جواسے ترک کردے وہ کافر ہے ۔‘‘(احمد، اہل سنن باسنادصحیح)نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے کہ’’ آدمی اورکفر وشرک کے درمیان فرق، ترک نماز سے ہے ۔‘‘(صحیح مسلم)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے پاس نماز کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:’’جس نے نماز کی حفاظت کی تونماز اس کے لیے قیامت کے دن نور، برہان اور ذریعہ نجات بن جائے گی اورجس نے اس کی حفاظت نہ کی توروزقیامت اس کے پاس نہ نور، نہ برہان اورنہ ذریعۂ نجات ہوگا بلکہ قیامت کے دن اسے فرعون، ہامان، قارون اورابی بن خلف کے ساتھ اٹھایا جائے گا ۔‘‘
بعض علماء نے اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے کہ نماز ضائع کرنے والے کو روز قیامت ان کافروں کے ساتھ اس لیے اٹھایا جائے گا کہ اگراس نے حکمرانی کی وجہ سے نماز کو ضائع کیا ہے تو وہ فرعون کے مشابہ ہے، لہذا اسی کے ساتھ اسے روز قیامت جہنم رسید کیا جائے گا، اگر کسی نے اسے وزارت یا دیگر اہم منصبوں پر فائز ہونے کی وجہ سے ضائع کیا ہے توفرعون کے وزیر ہامان کے ساتھ اس کی مشابہت ہے، لہذا قیامت کے دن اسی کے ساتھ اسے جہنم رسید کیاجائے گا، اگرمال ودولت کی فروانی اورخواہشات نفسانی نماز کے ضائع کرنے کا سبب ہے تو اس کا یہ عمل اس قارون جیسا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اس کے گھر سمیت زمین میں دھنسا دیا تھا کہ مال ودولت کی فروانی اورخواہشات نفسانی کی وجہ سے اس نے تکبر کی روش اختیار کی اورحق کی اتباع نہ کی ۔لہذا ایسے شخص کا قیامت کے دن جہنم جاتے وقت قارون کے ساتھ حشر ہوگااوراگراس نے نماز کو تجارت اوردیگر امورومعاملات کی وجہ سے ضائع کیا تو اس کا یہ عمل مکہ کے تاجروں کے کافر سردارابی بن خلف سے مشابہت رکھتا ہے، لہذا روز قیامت اسے ابی بن خلف کی رفاقت میں واصل جہنم کیا جائے گا۔ہم اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں عافیت عطافرمائے اوران اوران جیسے دیگر کافروں کے حالات سے بچائے۔
|