سُلْطَانًا وَأَن تَقُولُوا عَلَى اللّٰه مَا لَا تَعْلَمُونَ) (الاعراف۷ /۳۳)
’’ (اے پیغمبر!)کہہ دیجئےکہ میرے پروردگار نے تو بےحیائی کی باتوں کو، ظاہر ہوں یا پوشیدہ اورگناہ کو اورناحق زیادتی کرنے کو حرام کیا ہےاور اس کو بھی (حرام کیا ہے)کہ تم کسی کو اللہ کا شریک بناؤ جس کی اس نے کوئی سند نازل نہیں کی اور اس کو بھی کہ(حرام کیا ہے) اللہ کے بارے میں ایسی باتیں کہو جن کا تمہیں کچھ علم نہیں ۔‘‘
لہذا اس آدمی کو اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہئے جو اس منکر طریقےکو اختیار کرتا اور اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ایسی بات منسوب کرتا ہے جو انہوں نے بیان ہی نہیں فرمائی۔سزاؤں کی تحدید اوراعمال کی جزاکے تعین کا تعلق علم غیب سے ہے، لہذا اس کے معلوم کرنے کا طریقہ صرف وحی الٰہی ہے جس کی روشنی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہےان پمفلٹوں میں مذکورسزاؤں کا کتاب وسنت میں کوئی ذکر نہیں ہے۔
وہ حدیث جسے صاحب پمفلٹ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیا ہے کہ تارک نماز کو پندرہ قسم کی سزائیں ملتی ہیں۔۔۔۔۔الخ تویہ باطل اورجھوٹی روایت ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنا جھوٹ ہے جیسا کہ حفاظ حدیث علماء کرام رحمہم اللہ مثلا حافظ ذھبی رحمۃ اللہ علیہ نے’’میزان‘‘ میں حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اورکئی دیگر علماء نے بیا ن فرمایا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ’’لسان المیزان‘‘ میں محمد بن علی بن عباس بغدادی عطارکے حالات میں لکھا ہے کہ اس نے تارک نماز کے بارے میں ایک باطل حدیث ابوبکر بن زیادنیشاپوری کی طرف منسوب کی جسے اس سے محمد بن علی موازینی، ابی نرسی کے شیخ نے روایت کیا ہے اور محمد بن علی کا گمان یہ ہے کہ ابن زیاد نے اسے ربیع عن الشافعی عن مالک عن سمی ابی صالح عن ابی ہریرہ سند سے مرفوعا بیان کیا ہے کہ جو شخص نماز میں سستی کرے گا تو اللہ تعالیٰ اسے پندرہ سزائیں دے گا۔۔۔۔۔یہ روایت بالکل باطل اورصوفیاء کی وضع کردہ ہے۔
بحوث العلمیتہ والافتاء کی مستقل کمیٹی نے اس حدیث کے باطل ہونے کے بارے میں مؤرخہ ۱۰ /۶ /۱۴۰۱ہجری کو فتوی بھی دیا تھا، کوئی عقلمند آدمی اس بات کو پسند نہیں کرسکتا کہ وہ اس موضوع حدیث کی ترویج واشاعت کرے کیونکہ صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جو شخص میری طرف کوئی ایسی حدیث منسوب کرکے روایت کرتا ہے جسے وہ جھوٹی حدیث سمجھتا ہے تووہ بھی دوجھوٹوں میں سے ایک ہے ۔‘‘اس جھوٹی حدیث کی ضرورت بھی کیا ہے جب کہ اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ نماز کی شان اورتارک نماز کی سزاکے بارے میں بیان فرمایا ہے، وہ کافی شافی ہے۔ارشادباری تعالیٰ ہے:
﴿إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا﴾ (النساء۴ /۱۰۳)
’’بے شک نماز کا مومنوں پر اوقات (مقررہ)میں اداکرنا فرض ہے ۔‘‘
اور اہل جہنم کا ذکر کرتےہوئےاللہ نے فرمایاہے:
﴿مَا سَلَكَكُمْ فِي سَقَرَ ﴿٤٢﴾ قَالُوا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّينَ﴾ (المدثر۷۴ /۴۲۔۴۳)
’’تم کو دوزخ میں کونسی چیز لےآئی؟وہ جواب دیں گےکہ ہم نمازنہیں پڑھتےتھے ۔‘‘
گویا جہنمیوں کی ایک نشانی ترک نمازبھی ہے، نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿فَوَيْلٌ لِّلْمُصَلِّينَ ﴿٤﴾ الَّذِينَ هُمْ عَن صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ ﴿٥﴾ الَّذِينَ هُمْ يُرَاءُونَ ﴿٦﴾ وَيَمْنَعُونَ الْمَاعُونَ﴾(الماعون۱۰۷ /۴۔۷)
|