نفس کیفیت کے جاننے کی بھی ضرورت نہ تھی بلکہ ضرورت اسی بات کی تھی کہ صفات کے اثبات کے بعد ان کی کیفیت جاننے کی نفی کی جاتی۔
جوشخص جزئی صفات یا مطلقاصفات کی نفی کرے اسے بلاکیف کہنے کی ضرورت نہیں ہے مثلا اگرکوئی شخص یہ کہے کہ اللہ عرش پر نہیں ہے تواسے یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ وہ عرش پر بلاکیف مستوی ہے، اگر سلف کا مذہب حقیقت میں نفی صفات ہوتا تووہ بلاکیف کے الفاظ استعمال نہ کرتے، علاوہ ازیں ان کا یہ کہنا کہ ’’ان کو اسی طرح بلا کیف مانو جس طرح یہ آئی ہیں۔‘‘اس بات کا تقاضا کرتا ہےکہ ان کی دلالت کو ان کے الفاظ کے اعتبار سے اسی طرح باقی رکھا جائے، یہ آیات ایسےالفاظ پر مشتمل ہیں جو اپنے معانی پر دلالت کرتی ہیں اگر ان الفاظ کی اپنے معانی پر دلالت نہ ہوتی تو پھر واجب یہ تھا کہ یہ نہ کہا جاتا کہ ان کے الفاظ کو تو مانو لیکن عقیدہ یہ رکھو کہ ان کا مفہوم مراد نہیں ہے یا یہ کہ ان الفاظ کو تو مانو اورعقیدہ یہ رکھو کہ اللہ تعالیٰ کو ان صفات کے ساتھ موصوف قرارنہیں دیا جاسکتا، جن پر ان الفاظ کی حقیقت دلالت کناں ہے اورپھراس وقت ان کو اس طرح مانا تو جاتا جس طرح یہ آئی ہیں اوریہ کہا جاتا کہ ان کو بلاکیف مانو کیونکہ جو چیز ثابت ہی نہ ہو اس کی کیفیت کی نفی کرنا ایک لغو بات ہے۔
(۶)جو حق کی مخالفت کرے، اس کا انکار کرنا واجب ہے، علم چھپانے کی وصیت کرنا جائز نہیں ہے۔
شیخ صابونی نے اپنے مذکورہ مقالہ میں شیخ حسن البناکے حوالہ سے یہ بات بھی لکھی ہے کہ’’ہم متفق علیہ باتوں پر جمع ہوجائیں گے اور مختلف امور میں ایک دوسرے کو معذور سمجھیں گے ۔‘‘
اس کے جواب میں ہم یہ عرض کریں گے کہ ہاں جن امور میں ہم متفق ہیں مثلا یہ کہ حق کی نصرت وحمایت کی جائے، اس کی دعوت دی جائے، ان امور میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا واجب ہے باقی رہا مختلف امور میں ایک دوسرے کو معذور سمجھنا تو یہ بات علی الاطلاق درست نہیں ہے بلکہ اس میں قدرے تفصیل ہے۔وہ مسائل جو اجتہادی ہیں اور جن کی دلیل مخفی ہے تو ان میں یہ واجب ہے کہ ہم ایک دوسرے کا انکار نہ کریں لیکن وہ مسائل جو نصوص کتاب وسنت کے خلاف ہوں، ان میں حکمت، موعظت حسنہ اور احسن انداز میں جدال کے اسلوب کو اختیار کرتے ہوئے انکار کرنا واجب ہے تاکہ حسب ذیل ارشاد باری تعالیٰ کے مطابق عمل ہوسکے:
﴿وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ﴾ (المائدۃ۵ /۲)
’’نیکی اور پرہیز گاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم کی باتوں میں مدد نہ کیا کرو ۔‘‘
اور فرمایا:
﴿وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ﴾(التوبۃ۹ /۷۱)
’’اور مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے(ممد ومعاون اور)دوست ہیں وہ بھلائیوں(نیکی)کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں ۔‘‘
اور فرمایا:
﴿ادْعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ ۖ وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ﴾ (النحل۱۶ /۱۲۵)
|