Maktaba Wahhabi

658 - 677
’’تمھیں یہ بچہ کیسا لگتا ہے؟‘‘ میں نے کہا: جسے بھیڑ کا دودھ بطور غذا ملے گا وہ ایسے ہی تنومند ہو گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میرے ساتھ اس کی کوئی مشابہت نہیں ؟‘‘ بقول عائشہ رضی اللہ عنہا : اس سوال پر مجھے عورتوں کی فطرت کے مطابق غیرت نے گھیر لیا اور میں نے کہہ دیا: مجھے اس میں آپ کے ساتھ کوئی مشابہت دکھائی نہیں دیتی۔ بقول عائشہ رضی اللہ عنہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک لوگوں کی باتیں پہنچ رہی تھیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: یہ تلوار لو اور جاؤ ماریہ کا چچا زاد تجھے جہاں ملے اس کی گردن کاٹ دو۔ بقول عائشہ رضی اللہ عنہا : علی رضی اللہ عنہ اس کی طرف گئے تو وہ ایک باغ میں کھجور کے درخت سے تازہ کھجوریں توڑ رہا تھا۔ بقول راوی: جب اس نے علی رضی اللہ عنہ ۱ دیکھا کہ اس کے ہاتھ میں تلوار ہے تو خوف سے اس پر کپکپی طاری ہو گئی۔ بقول علی رضی اللہ عنہ : اس کا تہہ بند نیچے گر پڑا۔ علی رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے کوئی ایسی چیز نہیں بنائی جو مردوں کے ساتھ خاص ہے۔ اس کا جسم بالکل ہموار تھا۔[1] اللہ کے دشمن ابن سلول نے خباثت کا جو بیج بویا کوئی مومن یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ وہ مستقبل میں روافض کی شکل میں ایک تناور درخت بن کر پھلے پھولے گا۔ حتیٰ کہ بہتان تراشوں کو اپنے بہتان گھڑنے کے لیے ایک وسیع و لا محدود میدان ہاتھ آ جائے گا۔ جس میں وہ اپنے جھوٹ، افتراء پردازیوں اور سلولی کذب بیانی کی فصل کاشت کرتے رہیں گے۔ بلکہ وہ اس قدر دیدہ دلیری کے ساتھ لوگوں کے جم غفیر کے سامنے ببانگ دہل ان نفوس قدسیہ کے خلاف زبان درازی ہی نہیں کرتے وہ مسلسل از اکابر تا اصاغر اپنی کتابوں میں بھی ان جھوٹے افسانوں کو چھاپ رہے ہیں ۔ ایسے ظالم افتراء پردازوں میں سے ایک نے دشمنی اور ظلم کی انتہا ہی کر دی اور ام المؤمنین کے نام پر شرم و حیا سے عاری ایسی عریاں بوقلمونیاں تراشی ہیں کہ جن کے تصور سے ہی کپکپی طاری ہو جاتی ہے اور بدن پسینہ سے شرابور ہو جاتا ہے۔ اس کی زبان غیر فصیح اور انداز بیان نہایت گھٹیا اور پست ہے، وہ ظالم لکھتا ہے: کسی کی طرف کفر منسوب کرنا اس کی طرف زنا منسوب کرنے سے زیادہ قبیح ہے تو پھر تم پہلی بات کو کس طرح قبول کرتے ہو اور دوسری بات کو کیوں ردّ کرتے ہو؟[2] جواب:.... اسے کہا جائے گا: جب دل اندھیرے میں غرق ہوتا ہے تو عقل کی مخالفت کرنا آسان
Flag Counter