کرتے ہیں اور ان کے علاوہ ہر کسی کو اہل بیت سے خارج کرتے ہیں ، حتیٰ کہ علی اور فاطمہ رضی ا للہ عنہما کی دیگر اولاد کو بھی اہل بیت میں شمار نہیں کرتے۔
اس لیے ان کے نزدیک علی رضی اللہ عنہ کی دیگر اولاد اہل بیت میں شمار نہیں ہوتی جیسے محمد بن حنفیہ، ابوبکر، عمر، عثمان، عباس، جعفر، عبداللہ، عبیداللہ، یحییٰ اور نہ ہی ان کے بارہ بیٹے اور ان کی اٹھارہ یا انیس بیٹیاں (اختلاف روایات کی بنا پر)، اسی طرح انھوں نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کی دیگر بیٹیوں کو بھی اہل بیت سے نکال دیا ہے، جیسے زینب، ام کلثوم اور ان دونوں کی اولاد کو۔ اسی طرح وہ حسن بن علی کی ساری اولاد کو اہل بیت سے نکالتے ہیں ۔ بلکہ وہ حسین کی اکثر اولاد پر جھوٹ، فسق و فجور حتیٰ کہ کفر و ارتداد تک کے بہتان لگاتے ہیں ۔ اسی طرح وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچوں اور پھوپھیوں کے بیٹوں اور ان کی اولاد کو گالیاں دیتے ہیں ، حتیٰ کہ علی رضی اللہ عنہ کے علاوہ ابو طالب کی دیگر اولاد سے بھی وہ یہی سلوک کرتے ہیں ، اسی طرح وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تینوں بیٹیوں زینب، ام کلثوم اور رقیہ علیہ السلام کو سوائے فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ان سب کے خاوندوں اور اولادوں کو اہل بیت میں شمار نہیں کرتے۔[1]
راجح قول:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت کے بارے میں صحیح ترین قول یہ ہے کہ جن پر صدقہ لینا حرام ہے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت میں شمار ہو گا، جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام ازواج اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سب اولاد اور عبدالمطلب کی نسل سے ہر مسلمان مرد اور مسلمان عورت اور وہ بنو ہاشم بن عبد مناف ہیں اور صحیح مسلم کی روایت دلالت کرتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت سے ہیں ۔[2]
عبدالمطلب بن ربیعہ بن حارث بن عبدالمطلب سے روایت ہے کہ وہ اور فضل بن عباس رضی ا للہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس غرض سے گئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں صدقہ وصول کرنے کے لیے بھیجیں ۔ تاکہ وہ اتنا مال کما لیں جس سے وہ دونوں شادی کر سکیں ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں سے فرمایا: ’’آل محمد کو صدقہ نہیں لینا چاہیے، کیونکہ یہ لوگوں کی میل کچیل ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کی شادی کرانے کا
|