یہ حدیث عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اور اس کا متن یہ ہے ’’جب حاکم فیصلہ اجتہاد سے کرے اگر اس کا فیصلہ صحیح ہے تو اس کے لیے دو اجر ہیں اور جب وہ اجتہاد کے ذریعے فیصلہ کرے اور غلطی کرے تو اسے ایک اجر ملے گا۔‘‘
جہنمی کتے ہیں ۔
طارق بن شہاب[1] سے روایت ہے:
’’سیّدنا علی رضی اللہ عنہ جب اہل نہروان (خوارج) کے قتال سے فارغ ہوئے تو میں ان کے پاس تھا۔ اس سے پوچھا گیا کیا وہ مشرک ہیں ؟ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: وہ شرک سے تو بھاگے ہیں ۔ پھر کہا گیا تو وہ منافقین ہیں ؟ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: منافقین اللہ کو بہت کم یاد کرتے ہیں ۔ پوچھا گیا، تو پھر وہ کون ہیں ؟ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ان لوگوں نے ہم سے بغاوت کی تو ہم نے ان سے قتال کیا۔‘‘[2]
یہ بالکل صریح روایت ہے کہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے انھیں کافر نہیں کہا۔ حالانکہ ان (خوارج) کی تاویل غیر مناسب تھی لیکن ان کے لیے شبہ کی موجودگی نے علی رضی اللہ عنہ کو انھیں کافر کہنے سے روک دیا۔ تو پھر جو لوگ اجتہاد کی اہلیت رکھتے ہوں اور انھوں نے اجتہاد کیا، لیکن انھوں نے علی رضی اللہ عنہ پر کفر کی تہمت بالکل نہیں لگائی، بلکہ جیسا کہ ہم تحریر کر چکے ہیں کہ انھوں نے علی رضی اللہ عنہ سے قتال کا ارادہ بھی نہیں کیا (تو وہ کافر کیسے ہو گئے؟)
دوسرا شبہ:
’’سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی مخالفت کی، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَى ﴾ (الاحزاب: ۳۳)
’’اور اپنے گھروں میں ٹکی رہو اور پہلی جاہلیت کے زینت ظاہر کرنے کی طرح زینت ظاہر نہ کرو۔‘‘[3]
جواب:
اس شبہ کا جواب پانچ وجوہ سے دیا جائے گا: [4]
وجہ نمبر ۱:.... یہ صحیح ہے کہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا گھر سے نکلیں لیکن جاہلیت قدیمہ کا بناؤ سنگھار نہیں
|