قسم! سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی ایک انگلی زمین کے تہہ در تہہ خزانوں سے بہتر ہے اور اللہ کی قسم! جس نام نہاد عیب کو بہانہ بنا کر ان ظالموں نے ظلم ڈھائے اگر وہ ثابت بھی ہو جاتا تو عثمان رضی اللہ عنہ اس سے اس طرح بری ہوتے جس طرح خالص سونا میل کچیل سے علیحدہ ہوتا ہے یا میلا کپڑا صاف ہو جاتا ہے۔[1]
سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ پہلی گفتگو تھی جو اس حقیقت کی دلیل ہے کہ ان کے دل میں سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی کس قدر قدر و منزلت تھی اور یہ کہ ان پر جتنے بھی اتہام اور الزامات لگائے جاتے تھے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا انھیں مکمل طور پر ان سے بری الذمہ ہونے کا یقین رکھتی تھیں ۔ یہ صحیح ہے کہ امور خلافت میں کبھی کبھار وہ سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی مخالف رائے بھی ظاہر کرتی تھیں ۔ لیکن یہ سب کچھ خیر خواہی کی نیت سے ہوتا تھا۔ جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((اَلدِّیْنُ النَّصِیْحَۃُ)) [2]
’’دین خیر خواہی کا نام ہے۔‘‘
وہ دونوں (سیّدنا عثمان اور سیّدہ عائشہ رضی ا للہ عنہما ) مجتہد تھے وہ صرف حق کی تنفیذ چاہتے تھے۔ ان دونوں کو ہر حال میں ایک یا دو اجر ملیں گے۔ ان شاء اللّٰہ۔
چوتھا نکتہ :....سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا عہد علی رضی اللہ عنہ میں
سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے خلافت کی ذمہ داری سنبھالی۔ خلافت سے پہلے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور سیّدنا علی رضی اللہ عنہ میں کوئی بڑا اختلاف نہیں تھا۔ جو سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو ان کے خلاف بغاوت پر اکساتا۔ بلکہ دونوں کے درمیان باہمی اعتماد و احترام کا رشتہ قائم تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سب لوگوں سے زیادہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے مقام و مرتبے سے واقف تھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا جو مقام محبت تھا اس سے بھی سیّدنا علی رضی اللہ عنہ لاعلم نہیں تھے۔ اسی طرح سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو بخوبی علم تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کا کیا مقام و مرتبہ ہے۔ وہ آپ کے چچا زاد اور داماد بھی تھے ، ان کا شمار بھی عشرہ مبشرہ میں ہے ۔ ان کا جذبۂ جہاد، ان کی شجاعت و بہادری، ان کا فضل اور ان کی اسلام کی طرف اوّلیت جیسی صفات سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی نگاہوں سے اوجھل نہ تھیں ۔[3]
|