۸۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ضمن میں کردار:
ام المومنین سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی صفات میں سے ایک اہم صفت یہ بھی تھی کہ وہ ہر وقت لوگوں کے ہر طبقہ میں نیکی کا حکم کرنے اور برائی سے روکنے کے لیے مستعد رہیں ۔ ام المؤمنین اپنی حیاتِ طیبہ میں ہمیشہ علماء، حکمرانوں اور عام مسلمانوں کا محاسبہ کرتی رہتیں ۔
حکمرانوں کے محاسبے کی مثال صحیح بخاری کی روایت میں واضح ہے۔ یوسف بن ماہک بیان کرتے ہیں کہ جب سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے مروان حجاز کا والی مقرر ہوا تووہ خطبے میں یزید[1] بن معاویہ کا تذکرہ کرتے ہوئے لوگوں کو قائل کرنے کے لیے کہنے لگا : اس کے باپ کے بعد تم اس کی خلافت کی بیعت کر لو۔ یہ سن کر عبدالرحمن بن ابی بکر رضی ا للہ عنہما نے اسے ڈانٹا تو اس نے اپنے دربانوں کو حکم دیا کہ اسے پکڑ لو۔ انھوں نے بھاگ کر سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں پناہ لے لی، تو دربان وہاں تک جانے کی جرأت نہ کر سکے۔ تب مروان نے کہا: یہی شخص ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمان نازل کیا:
﴿ وَالَّذِي قَالَ لِوَالِدَيْهِ أُفٍّ لَكُمَا أَتَعِدَانِنِي﴾ (الاحقاف: ۱۷)
’’اور وہ جس نے اپنے والدین سے کہا اف ہے تم دونوں کے لیے! کیا تم مجھے دھمکی دیتے ہو۔‘‘
چنانچہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے پردے کے پیچھے سے فی البدیہ جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں میرے عذر کے علاوہ ہمارے بارے میں کچھ نازل نہیں کیا (یعنی تمہاری بات غلط ہے)۔ [2]
روایات میں ذکر ہے کہ یحییٰ[3] بن سعید بن عاص نے اپنی بیوی کو طلاق بتہ دے دی جو عبدالرحمن بن حکم کی بیٹی تھی، تو مروان جو کہ مدینہ منورہ کا گورنر تھا ، نے اسے اس کے باپ عبدالرحمن کے پاس بھیج دیا۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اسے کہلا بھیجا کہ تم اللہ سے ڈر جاؤ اور اسے اپنے گھر لے جاؤ۔ سلیمان کی روایت میں ہے کہ مروان نے کہا: عبدالرحمن بن حکم مجھ پر غالب آ گیا ہے۔ قاسم بن محمد بن ابی بکر نے کہا: کیا تم تک سیّدہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کا معاملہ نہیں پہنچا؟ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اگر تمہیں فاطمہ بنت قیس کا
|