جھوٹے افسانوں کے ذریعے اس حسین تصویر کو مسخ کر ڈالا اور صحابہ کے درمیان جھگڑوں اور لڑائیوں کی روایات گھڑ لیں ۔ ان فتنہ پرور لوگوں کی کوکھ سے درج ذیل دو بڑے شرانگیز فتنے پھیلانے والے گروہ پیدا ہوئے۔
۱۔ الناصبیہ:
انھوں نے سیّدنا علی اور اہل بیت رضی اللہ عنہم کے درمیان عداوت قائم ہونے کا اعلان کیا۔ یہ اس وقت کے مشہور سیاسی معاملات و نظریات و عوامل کی وجہ سے وجود میں آئے۔ بہرحال طویل مدت ہوئی یہ فرقہ ناپید ہو گیا اور دوبارہ اس کا ظہور نہ ہوا۔ و الحمد للّٰہ۔[1]
۲۔ الرافضہ:
دوسرا گروہ الرافضہ کا ہے جو علی اور اہل بیت رضی اللہ عنہم کی شان میں غلو کرتے ہیں اور صحابہ کے درمیان عداوت کو قائم اور نشر کرتے ہیں یہ پہلے فرقے کی نسبت زیادہ جھوٹے ہیں اور جھوٹ سے ایسا جال بنا کہ جس کے سننے، پڑھنے اور لکھنے سے بھی حیا آتی ہے۔
بے شک اللہ عزوجل نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کا یہ وصف قرآن میں یوں بیان کیا ہے:
﴿ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ﴾ (الفتح: ۲۹)
’’کافروں پر بہت سخت ہیں ، آپس میں نہایت رحم دل ہیں ۔‘‘
چونکہ یہ آیت کریمہ اصحاب النبی کی زندگی میں عملی صورت پر موجود رہی۔ محبت، بھائی چارہ، رحم دلی، باہمی تعاون، ایثار، قربانی وغیرہ جیسی صفات ان میں نمایاں تھیں اور ہر وہ شخص جو ان تعلقات کریمانہ کے خلاف عقیدہ رکھتا ہے وہ قرآن کریم کی صریحاً تکذیب کرتا ہے اور اللہ کی گواہی کو ردّ کرتا ہے اور تاریخ کو ہٹ دھرمی سے مسخ کرتا ہے۔
درج بالا بلند تربیت، باہمی الفت اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت کے متعلق وصیت سے مزین تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سرشار تھے۔ عائشہ صدیقہ کے والد گرامی ابوبکر صدیق رضی ا للہ عنہما نے ایک روز عصر کی نماز پڑھی، پھر مسجد سے نکل کر گھر کی طرف جا رہے تھے۔دیکھا کہ سیّدنا حسین بن علی رضی ا للہ عنہما بچوں کے ساتھ کھیل رہے ہیں ۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انھیں اپنے کندھوں پر اٹھا لیا اور کہنے لگے: میرا باپ تجھ پر قربان، تو تو بالکل نبی صلی اللہ علیہ وسلم جیسا ہے علی رضی اللہ عنہ جیسا بالکل نہیں اور سیّدنا علی رضی اللہ عنہ قریب کھڑے مسکرا رہے تھے۔[2]
|