ہونے والی تھی، اس لیے احکام شریعت کا نزول شروع ہو گیا اور آیات طویل ہوتی گئیں اور ان دونوں سورتوں میں احکام و قوانین کا اسلوب اپنایا گیا ہے۔ ‘‘
سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :
’’بلاشبہ سورۃ القمر مکہ میں نازل ہوئی اور اس سورت میں قیامت کا تذکرہ ہے۔ کیونکہ ابتدائے اسلام کی بات ہے اور اس میں مشرکوں کا انکار کیا گیا ہے اور ان کے نظریات کا ردّ کیا گیا ہے۔ کیونکہ وہاں اسلام کا رُخ صرف مشرکین کی طرف تھا اور اسی بنا پر مکہ میں چھوٹی آیات کا اسلوب اختیار کیا گیا۔ کیونکہ انداز بیان میں اس کی گہری تاثیر ہوتی ہے۔‘‘[1]
ام المومنین سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا منہج تفسیر
۱۔ قرآن کریم کے ساتھ قرآن کریم کی تفسیر:
سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سب سے پہلے قرآن کی تفسیر قرآن سے کرنے کو ترجیح دیتی تھیں اور تفسیر کا یہ طریقہ سب سے زیادہ صحیح ہے، چنانچہ سب سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کی تفسیر قرآن سے کی اور یہ حقیقت بلاشک و شبہ واضح ہے کہ قرآن میں ایک بات ایک مقام پر اگر مجمل ہے تو وہی بات دوسرے مقام پر مفصل ہوتی ہے۔ عروہ رحمہ اللہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کا مفہوم پوچھا:
﴿وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَى فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ﴾ (النساء: ۳)
’’اور اگر تم ڈرو کہ یتیموں کے حق میں انصاف نہیں کرو گے تو (اور) عورتوں میں سے جو تمھیں پسند ہوں ان سے نکاح کرلو، دو دو سے اور تین تین سے اور چار چار سے۔‘‘
سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:
’’اے میرے بھانجے! یہ اس یتیم لڑکی کے متعلق ہے جو اپنے سر پرست کے پاس پرورش پا رہی ہو، وہ لڑکی اپنے سرپرست کے مال میں اس کی شریک ہوتی ہے چنانچہ اگر سرپرست اس یتیم لڑکی کے مال پر ریجھ جائے اور اس کی خوبصورتی اس کا دل موہ لے اور اس کا سرپرست
|