ابن عمر رضی ا للہ عنہما کا بھی یہی موقف ہے۔[1]
دوسرا بہتان:
اس قول کا جائزہ کہ ’’عائشہ رضی اللہ عنہا حضرت حسن اور حسین رضی ا للہ عنہما سے پردہ کرتی تھیں ۔‘‘
اہل تشیع کا دعویٰ ہے کہ ’’سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا حسن اور حسین رضی ا للہ عنہما سے بغض رکھنے کی وجہ سے ان سے پردہ کرتی تھیں ۔‘‘[2]
حجاب کرنے والی روایت ’’الطبقات الکبری‘‘ میں ابن سعد نے بواسطہ محمد بن عمر، عکرمہ سے نقل کی کہ عائشہ رضی اللہ عنہا حسن اور حسین رضی ا للہ عنہما دونوں سے حجاب کرتی تھیں تو ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: ان دونوں کا اس کے پاس آنا یقیناً حلال و جائز ہے۔
نیز دوسری روایت بھی بواسطہ محمد بن عمر ابو جعفر سے نقل کی ہے کہ حسن اور حسین نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بیوی کے پاس نہیں جاتے تھے۔ چنانچہ ابن عباس رضی ا للہ عنہما نے کہا: تاہم ان دونوں (حسن و حسین) کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کے پاس آنا حلال ہے۔[3]
اس روایت کا راوی محمد بن عمر واقدی ہے، اس کے متعلق ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے یہ متہم (بالکذب) ہے اور امام بخاری رحمہ اللہ نے لکھا ہے واقدی مدنی ہے، پھر بغداد میں رہائش پذیر ہو گیا اور یہ متروک الحدیث ہے۔
امام احمد رحمہ اللہ نے بھی اسے متروک کہا ہے اور اس کے متعلق ابن المبارک، ابن نمیر اور اسماعیل بن زکریا بھی یہی کہتے ہیں ۔
ابن حجر رحمہ اللہ نے دوسرے مقام پر کہا اسے احمد رحمہ اللہ نے کذاب کہا۔
معاویہ بن صالح نے کہا: مجھے احمد بن حنبل نے کہا: ’’واقدی کذاب ہے اور ایک بار مجھے یحییٰ بن معین رحمہ اللہ نے کہا: یہ بے وزن و غیر اہم ہے۔‘‘
بیہقی رحمہ اللہ نے اپنی سند کے ساتھ امام شافعی رحمہ اللہ کا یہ قول نقل کیا ہے: ’’واقدی کی تمام کتابیں جھوٹ کا پلندہ ہیں ۔‘‘
|