’’محدثین کی معروف کتابوں میں اس طرح کی کوئی حدیث نہیں اور نہ ہی اس کی اسناد معروف ہیں اور اگر بالفرض نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا بھی ہو تب بھی یہ لازم نہیں آتا کہ ان سب نے اسے سنا ہو۔ کیونکہ تمام صحابہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام فرامین نہیں سن سکتے۔ تو پھر جب معاملہ اس طرح ہو کہ معلوم ہی نہیں کہ یہ فرمان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے اور نہ ہی اس کی کوئی معروف سند ہے بلکہ یہ بھی معلوم ہے کہ محدثین کے اتفاق سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے یہ جھوٹ وضع کیا گیا تو کیسے اسے دلیل بنایا جا سکتا ہے۔‘‘[1]
دوسری جگہ لکھتے ہیں :
’’ان ذلیلوں پر سب سے بڑی مصیبت کے نازل ہونے پر کوئی تعجب نہ کرے کہ وہ اتنا بڑا اصول ایسی حدیث سے ثابت کر رہے ہیں جو حدیث کے معتمد علیہ مجموعوں میں سے کسی میں موجود نہیں ، نہ تو وہ صحاح میں ہے نہ سنن میں ، نہ مسانید میں اور نہ ہی فوائد میں اور نہ ہی محدثین کی روایت کردہ کسی اور کتاب میں جو علماء حدیث کے درمیان متداول ہو۔ ان کے نزدیک نہ یہ حدیث صحیح ہے، نہ حسن ہے نہ ضعیف ہے۔ بلکہ وہ اس سے بھی گئی گزری ہے اور وہ جھوٹ کے لحاظ سے واضح ترین موضوع روایت ہے، کیونکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت متواترہ معلومہ کے خلاف ہے یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں گروہوں کو مسلمان کہا ہے۔[2]
دوسری حدیث کی وضاحت:
اس حدیث میں وارد کفر کو صرف خوارج ہی کفر اکبر کہتے ہیں جو ملت اسلامیہ سے خارج کرنے کا باعث ہوتا ہے، کیونکہ ان کے نزدیک کبیرہ گناہ کا مرتکب مسلمان کافر ہو جاتا ہے اور یہ بخوبی معلوم ہے کہ یہ رائے واضح گمراہی ہے اور بے شمار نصوص قرآن و حدیث سے متصادم ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ إِنَّ اللّٰهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ ﴾ (النساء: ۴۸)
’’بے شک اللہ اس بات کو نہیں بخشے گا کہ اس کا شریک بنایا جائے اور وہ بخش دے گا جو اس کے علاوہ ہے، جسے چاہے گا۔‘‘
اس آیت میں توبہ کے بغیر مرنے والے کا ذکر ہے کیونکہ نص قرآنی اور مسلمانوں کے اجماع کے
|