اور مردوں کے جلوس میں بناؤ سنگھار کر کے گھر سے باہر نکلے اور اس نے عزم مصمم و موکد کر رکھا ہو کہ وہ علی کے ساتھ ضرور مڈبھیڑ کرے گی اور قتل علی کے ذریعے اپنے سینے میں بھری ہوئی بھاری دشمنی کو ٹھنڈا کرے گی اور لوگوں کو علی رضی اللہ عنہ کی دشمنی پر ابھارنا ....!!
اہل روافض نے ام المؤمنین رضی اللہ عنہا کی جو تصویر کشی کر رکھی ہے کیا وہ تصویران کی اپنی کتابوں میں موجود، ان کے اپنے اماموں سے مروی اس روایت سے ذرہ بھر بھی میل کھاتی ہے۔ جو عائشہ رضی اللہ عنہا کے رب العالمین کے خوف کی دلیل ہے اور سفر پر ان کے اظہار ندامت کا اعلان اور جب انھیں مقام معہود یعنی حوأب کے چشمے کا علم ہوا تو ان کا انا للّٰہ و انا الیہ راجعون پڑھنا ان کے افسوس کا اظہار ہے۔ کیا وہ اللہ اور اس کے رسول کی نافرمان تھیں ؟ اور اللہ انھیں اس الزام سے اپنی پناہ میں رکھے۔ کیا وہ قتال کا عزم صمیم رکھتی تھیں ؟ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت کو دیوار پر پھینکنے والی تھیں جو کہ حدود اللہ کو پامال کرنے کی جرأت کرنے والی تھیں ؟ جیسا کہ روافض نے افتراء ات اور جھوٹ کے طومار باندھے ہیں ۔
وہ تو رافضیوں کی اپنی من گھڑت جھوٹی روایت کے مطابق افسوس کا اظہار کر رہی ہیں ۔ نادم ہیں ۔ انا للّٰہ پڑھ رہی ہیں ۔ نرم دل ، اللہ سے خشوع کرنے والی، اس کی طرف رجوع کرنے والی ہیں ۔
رافضیوں پر لازم ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر جھوٹ بولنے کے لیے موکد اور مغلظ قسمیں اٹھائیں کہ یہ حوأب کا چشمہ نہ تھا تاکہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا سفر سے لوٹنے کا ڈر اور سارے پروگرام کو چھوڑ دینے کی روایت روافض کے موافق ہو جائے۔تو پھر وہ لوگوں کی کیسی قائد تھیں اور ان کے سامنے ان کی شان و شوکت کا کیا بنا؟ اور علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ان کے بغض کی کیا دلیل ہے؟ عائشہ رضی اللہ عنہا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے کب نکلیں اور ان کا علی رضی اللہ عنہ کے خون بہانے والا وہ بھڑکتا ہوا عزم کہاں گیا۔ بلکہ ان کی ولایت سے عائشہ رضی اللہ عنہا کا انکار! .... اس کا کیا بنے گا؟
پانچواں شبہ:
یہ کہ ’’جب عائشہ رضی اللہ عنہا کا لشکر بصرہ پہنچا تو انھوں نے بیت المال کو لوٹ لیا اور وہاں علی رضی اللہ عنہ کے نمائندے عثمان بن حنیف انصاری[1] رضی اللہ عنہ کو ذلیل و رسوا کر کے شہر بدر کر دیا۔ حالانکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
|