میں نے جواب دیا: نہیں ، کچھ بھی نہیں ۔
انھوں نے کہا: اگر تمھیں کچھ نظر آتا تو تم اُتنا حصہ دھو لیتے۔ بلاشبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑوں میں لگے خشک داغ اپنے ناخن سے کھرچتی تھی۔[1]
۸۔کچھ قریشی نوجوان ہنستے ہوئے مقام منٰی میں سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا: تم کیوں ہنس رہے ہو؟ انھوں نے کہا: ایک شخص خیمے کی رسی سے الجھ کر منہ کے بل گر پڑا اور ایسا گرا کہ اس کی گردن ٹوٹنے یا آنکھ ضائع ہونے کے قریب تھی۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے انھیں کہا: تم مت ہنسو! کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
((مَا مِنْ مُسْلِمٍ یُشَاکُ شَوْکَۃٌ فَمَا فَوْقَہَا، اِلَّا کُتِبَتْ لَہٗ بِہَا دَرَجَۃٌ وَ مُحِیَتْ عَنْہُ خَطِیْئَۃٌ)) [2]
’’جس مسلمان کو کانٹا یا اس سے بڑی چیز چبھے تو اس کے لیے ایک درجہ لکھ دیا جاتا ہے اور اس کی ایک خطا مٹا دی جاتی ہے۔‘‘
۹۔ معاصرین کے لیے بھی مبنی بر انصاف حسن رائے کا اظہار:
اگرچہ سیّدہ عائشہ اور دیگر امہات المومنین رضی اللہ عنہن کے درمیان نوک جھونک ہوتی رہتی تھی، تاہم سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا دیگر ازواج مطہرات علیہ السلام کا ذکر ہمیشہ خیر و بھلائی کے ساتھ کرتی تھیں ۔ مثلاً:
۱۔ام المومنین سیّدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں کہتیں : وہ ہم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والی اور سب سے زیادہ صلہ رحمی کرنے والی تھیں ۔[3]
۲۔سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ، ام المومنین سیّدہ زینب رضی اللہ عنہا کے بارے میں فرماتی تھیں : دین کے معاملہ میں ،میں نے سیّدہ زینب رضی اللہ عنہا سے بڑھ کر کوئی دین دار عورت نہیں دیکھی۔ اللہ عزوجل سے سب سے زیادہ ڈرنے والی، صدق مقال اور سب سے زیادہ صلہ رحمی کرنے والی، سب سے زیادہ صدقہ کرنے والی اور ان کے ہر عمل کا پیش نظر تقرب الٰہی اور رضائے الٰہی حاصل کرنا ہوتا۔ وہ انتقام لینے کے لیے فوراً غصے میں آ جاتیں لیکن جلد ہی ان کا غصہ کافور ہو جاتا۔[4]
|