رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اس کے پاس کوئی غیرت ، شرم و حیا ہے اور نہ کوئی حرمت و احترام ہے۔ اللہ تعالیٰ جھوٹوں پر لعنت کرے۔ یہ جھوٹ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر سب سے زیادہ اذیت ناک تیر ہے۔ گویا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی بیوی کے معاملے میں کوئی غیرت نہیں تھی۔ حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((أَتَعْجَبُونَ مِنْ غَیْرَۃِ سَعْدٍ لَأَنَا أَغْیَرُ مِنْہُ وَاللّٰہُ أَغْیَرُ مِنِّی۔))
’’کیا تم لوگوں کو سعد کی غیرت پر تعجب ہوتا ہے یقیناً میں اس سے زیادہ غیرت مند ہوں اور اللہ عزوجل مجھ سے زیادہ غیرت مند ہے (جس نے یہ قانون بنایا)۔‘‘ [1]
اس روایت میں علی رضی اللہ عنہ پر بھی طعن ہے کہ اللہ تعالیٰ سے بے خوف ہو کر ایک غیر محرم کے ساتھ سوتا رہا اور یہ جھوٹ گھڑنے والوں پر بھی یہ طعن ہے اور ان کی عقلوں پر بھی پردہ پڑ گیا ہے کہ ان کی حماقت کس درجہ تک پہنچ گئی کہ وہ اپنے امام کے متعلق ایسی اوٹ پٹانگ ہانک رہے ہیں ۔
شیعہ متاخرین کا عائشہ رضی اللہ عنہا کے متعلق جھوٹ گھڑنے کے اس قدر والہانہ پن کا سبب کیا؟
وہ سبب یہ ہے کہ ان میں سے بیشتر کے نزدیک عائشہ رضی اللہ عنہا پر جھوٹ بولنے اور اس کی نسبت بے حیائی کے کاموں کی طرف کرنے کا ان کے دین میں بہت بڑا اجر ہے۔
زین العابدین کورانی[2]، جو گیارہویں صدی ہجری کے عالم ہیں ، نے کہا: ’’....حتیٰ کہ ان کے بیشتر مصنّفین اور نمایاں واعظین نے صحابہ رضی اللہ عنہم پرسب و شتم اور ان سے اپنی براء ت کے اظہار اور عائشہ رضی اللہ عنہا پر سب و شتم اور اس کی نسبت بے حیائی کے کاموں کی طرف کرنے کو دین کا جزو شمار کیا ہے۔‘‘[3]
اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ پر سب و شتم اور ان کی نسبت ان الزامات و بہتانات کو دہرانا جن سے اللہ عزوجل نے ان کو بری کر دیا ہے۔ دین کا جزو اور حصہ ہے تو اس دین کے اصول و قواعد و ضوابط کیا ہوں گے؟ بقول شاعر:
اِذَا کَانَ جُزْئُ الدِّیْنِ کُفْرًا وَ رِدَّۃً
فَکَیْفَ بِاَصْلِ الدِّیْنِ اِنِّیْ لَاَعْجَبُ
|