اس شبہ کا ازالہ:
اوّل:.... پہلی حدیث میں یہ اضافہ کہ (عائشہ رضی اللہ عنہا اسے دل سے پسند نہیں کرتی تھیں ) شاذ ہے، صحیح نہیں ہے۔ بخاری و مسلم کا اس اضافے سے احتراز اور زہری کے شاگردوں کا اس پر عدم اتفاق کی وجہ سے اس اضافے کے متعلق دل میں وسوسہ پیدا ہوتا ہے۔ چنانچہ زہری کے شاگردوں سے سفیان، عقیل اور شعیب نے اس اضافے کو نقل نہیں کیا۔ جبکہ معمر نے یہ اضافہ روایت کیا اور ابن مبارک نے معمر اور یونس دونوں کو ایک ہی حدیث میں جمع کر دیا ہے، لیکن شیخان نے یہ اضافہ نقل نہیں کیا۔ اگرچہ ان دونوں نے ابن مبارک کے واسطے سے معمر سے روایت کی۔ مزید برآں موسیٰ بن ابی عائشہ نے اس اضافہ میں زہری کی متابعت نہیں کی۔
اسی طرح زہری سے جنھوں نے اس اضافے کے بغیر حدیث روایت کی ابراہیم بن سعد بھی ہے جو الطبقات میں ہے۔[1] حدیث سے پہلے بلا واسطہ سوال نقل کرتا ہے تو بیہقی نے دلائل[2] میں مغازی ابن اسحق سے یونس بن بکیر کی سند سے یہ حدیث نقل کی اور مغازی میں ابن حجر کی یہی سند ہے۔ اسے ابن اسحق نے یعقوب بن عتبہ سے، اس نے زہری سے روایت کیا اور اس میں یہ الفاظ نہیں ہیں جبکہ ابن اسحق نے تحدیث کی صراحت کی ہے۔
اسی طرح ابن اسحق نے زہری سے بلاواسطہ بھی یہ حدیث روایت کی۔ اس میں بھی یہ الفاظ نہیں ۔ تو جن راویوں نے یہ حدیث اضافہ مذکورہ کے بغیر روایت کی ان میں سفیان بن عیینہ، شعیب، عقیل، ابراہیم بن سعد، یعقوب بن عتبہ اور ابن اسحق ہیں البتہ معمر اضافے کے ساتھ متفرد ہے۔
امام بخاری و مسلم نے بھی یہ حدیث روایت کی لیکن اضافے سے احتراز پر دونوں متفق ہیں ، حالانکہ دونوں نے یہ حدیث معمر سے روایت کی گویا حدیث میں ان الفاظ کا اضافہ صحیح نہیں ۔[3]
دوم:.... اگر فرض کر لیں کہ یہ روایت صحیح ہے، تو پھر بھی شارحین حدیث نے اس کا جواب متعدد طریقوں سے دیا ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے دوسرے آدمی کا نام ابہام میں رکھا اس لیے کہ ساری مسافت میں کوئی ایک مخصوص نہ رہا۔ بلکہ کبھی تو فضل بن عباس رضی ا للہ عنہما آپ کو کندھا دیتے اور کبھی علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ
|