۳۔سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیشتر ایسے احکام فقہیہ میں مرجعِ خاص تھیں جو اکثر صحابہ سے مخفی تھے۔
۴۔انھوں نے متعدد ان مسائل کی وضاحت و تشریح کی جن کا تعلق عقیدہ صحیحہ سے تھا۔ وہ ان مسائل کی بہترین شارح اور مفسرہ تھیں ۔
۵۔کبار صحابہ میں سے جو بھی ان سے تفسیر قرآن کریم کے بارے میں پوچھتا یہ ان کے لیے بہترین مرجع ثابت ہوتیں ۔
۶۔زہد، دنیا سے بے رغبتی اور اس کی حرص نہ رکھنے میں عمدہ مثالیں قائم کیں اور وہ اس میدان میں مسلمانوں کے لیے بہترین نمونہ ہیں ۔[1]
۳۔ عہدِ اموی کی ابتداء میں ان کا دعوتِ دین پر اثر:
اللہ تعالیٰ نے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو طویل عمر عطا کی کہ انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دس سال بسر کرنے کے بعد خلفائے راشدین کے تیس سالہ سنہری عرصہ کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا، پھر عہد معاویہ کے بیشتر حصہ میں بھی زندہ رہیں ۔ وہ گزشتہ ادوار حیات میں اکثر علمائے امت، ائمہ اور امراء المسلمین کے لیے مرجع عام تھیں درج ذیل نکات میں ہم سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے دعوت پر اثرات کو درج ذیل نکات میں سمیٹیں گے:
۱۔جو مسلمان بھی ان کی ملاقات کے لیے جاتا وہ اسے پند و نصائح سے ضرور نوازتیں یا جس نے بھی ان سے رائے یا مشورہ طلب کیا، چاہے وہ عام مسلمان ہوتا یا علماء و امراء ہوتے وہ ضرور انھیں نصیحت کرتی تھیں ۔
۲۔دار آخرت کی تیاری کے لیے وہ مسلسل تقویٰ اور عمل صالح میں اضافہ کرتی رہتیں ۔
۳۔انھیں جتنا مال بھی میسر آتا وہ اسے بھلائی کے کاموں میں دل کھول کر خرچ کر دیتیں ، احسان، صلہ رحمی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق کی رعایت کرتے ہوئے امراء کی طرف سے انھیں جو عطیات ملتے وہ انھیں اللہ کے راستے میں خرچ کر دیتیں ۔
۴۔ان کے زمانے میں جو اقوال و احکام وقوع پذیر ہوتے اور ان تک پہنچتے تو وہ ان کی بغیر کسی خوشامد یا خوف کے علمی طریقے سے وضاحت کرتیں ۔
۵۔نبی مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث میں سے حسن استدلال، اس کی فہم و فراست اور اس کی مضبوط حجت ،
|