ہم سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو بشریت سے علیحدہ کرنے کے دعوے دار نہیں اور انھیں عورتوں کی فطرت سے بلند بھی نہیں سمجھتے۔ وہ اس معاملے میں اپنے جیسی دیگر عورتوں کی طرح ہی ہیں اور یہ بھی نہیں کہ ان کی فطری غیرت تمام حدود سے متجاوز تھی۔ نہیں ، بلکہ وہ دین و عدل کے قواعد کے تقاضوں سے اپنی غیرت کو بڑھنے نہیں دیتی تھی اور شاید ہمارے لیے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا اپنی سوکنوں کے ساتھ حسن سلوک اور کامل اتفاق سے رہنے کی مختلف عمدہ صورتیں زیر بحث مسئلہ کو واضح کر دیں جو ہمیں تاریخ و سیر و حدیث کی کتابوں میں ملتی ہیں اور ان سب نے اپنے خاوند صلی اللہ علیہ وسلم کو خوش رکھنے کے لیے اپنے آپ کو بھلا دیا تھا۔[1]
دوسرا شبہ:
وہ کہتے ہیں کہ ’’سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی کی۔‘‘
جب سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اللہ کی قسم! میرے خیال میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رب آپ کی خواہش کی بہت جلد تکمیل کرتا ہے۔ رافضی اپنے سابقہ قول کی طرح کہتے ہیں کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخ تھیں اور جب انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: میں تو سمجھتی ہوں کہ آپ کا رب آپ کی خواہش کی تکمیل کرنے میں جلدی کرتا ہے۔ اس پر تعلیق چڑھاتے ہوئے مرتضیٰ عسکری شیعی لکھتا ہے: اس قول کے ذریعے سے وحی کے منبع پر تنقید کی گئی ہے۔ گویا وحی کا منبع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش ہے۔ اللہ کی پناہ! بلکہ یہ تنقید تو وحی لانے والے پر بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی شان اس سے بہت بلند ہے۔[2]
اس شبہے کا ازالہ:
ہماری امی سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ قول ثابت ہے کہ مجھے ان عورتوں کی وجہ سے بہت غیرت آتی تھی جو اپنے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہبہ کر دیتی تھیں ، تومیں کہتی تھی کیا کوئی عورت اپنے آپ کو ہبہ کر سکتی ہے؟ جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:
﴿ تُرْجِي مَنْ تَشَاءُ مِنْهُنَّ وَتُؤْوِي إِلَيْكَ مَنْ تَشَاءُ وَمَنِ ابْتَغَيْتَ مِمَّنْ عَزَلْتَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكَ ﴾ (الاحزاب: ۵۱)
’’ان میں سے جسے تو چاہے مؤخر کر دے اور جسے چاہے اپنے پاس جگہ دے دے اور تو جسے بھی طلب کر لے، ان عورتوں میں سے جنھیں تو نے الگ کر دیا ہو تو تجھ پر کوئی گناہ نہیں۔‘‘
|