لگائی تو یہ آیات ماریہ قبطیہ کی براء ت کے لیے نازل ہوئیں ۔‘‘[1]
موجودہ زمانے کے کچھ رافضیوں نے واقعہ افک کو مشکوک ٹھہرانے کی کوشش کی ہے، ان میں سے ایک جعفر مرتضیٰ حسینی[2]ہے۔
اس نے ’’حدیث الافک‘‘ نامی ایک کتاب لکھی اور اس نے یہ کتاب ’’حدیث الافک‘‘ واقعہ افک کو مشکوک قرار دینے کے لیے لکھی۔ اس نے اپنی یہ مذموم کوشش کتاب کے شروع سے لے کر آخر تک جاری رکھی۔ متعدد وسائل و خود ساختہ جھوٹے دلائل سے واقعۂ افک کو غیر صحیح ثابت کرنے کی کوشش کی۔ کبھی تو اہل سنت کے راویوں پر جرح و طعن کیا، اس خیال سے کہ اس حدیث میں تناقض اور اضطراب پیدا کر سکے اور کبھی سند کو ضعیف کہا، لیکن ضعف کا سبب بیان نہیں کیا، یا اس طرح کی دیگر موشگافیاں اور کٹ حجتیاں سامنے لاتا رہا۔[3]
جنھوں نے واقعہ افک کا انکار کیا ان میں سے ہاشم معروف الحسنی[4] بھی ہے۔ اس نے اپنی کتاب ’’سیرۃ الائمۃ الاثنی عشرہ‘‘ میں اپنا انکار تحریر کیا۔[5]
ان دو کے علاوہ بھی ہیں جنھوں نے واقعہ افک کا انکار کیا۔
درج بالا بہتان کا ردّ:
اہل روافض کے عائشہ رضی اللہ عنہا کی واقعہ افک سے براء ت کا انکار اور اس قصہ میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کی کوششیں کرنا ان کے اپنے ائمہ اور علماء کے اقوال و اعترافات کا انکار اور رافضیوں کے آپس میں لا محدود تناقض کو ظاہر کرتا ہے۔ دیگر علماء و ائمہ نے صراحت کے ساتھ واقعہ افک اور عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس بہتان سے براء ت کے نزول کا اقرار و اعتراف اور کھلم کھلا اعلان کیا ہے۔ نیز شیعہ علماء نے اس بات کا بھی اعتراف کیا ہے کہ جو لوگ اس واقعہ افک پھیلانے کا سبب بنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر حد قذف جاری کی۔ جو روافض واقعہ افک کا اقرار کرتے ہیں وہ اس واقعہ سے عائشہ اور علی رضی ا للہ عنہما کے درمیان عداوت کی
|