کا صحابی تھا۔‘‘[1]
شبہے کا جواب:
اس شبہے کا جواب دو وجوہ سے دیا جائے گا:
وجہ نمبر ۱:.... عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ کے ساتھ جو کچھ پیش آیا عائشہ رضی اللہ عنہا کو نہ تو اس کا علم تھا اور نہ وہ اس پر خوش ہوئیں ۔ بلکہ جب لوگ اسے قصر شاہی سے ذلیل کر کے طلحہ اور زبیر کے پاس لائے تو ان دونوں نے اسے جرم عظیم کہا اور عائشہ رضی اللہ عنہا کو اس کی خبر دی۔ تب عائشہ رضی اللہ عنہا نے حکم دیا کہ وہ اپنی مرضی سے جہاں جانا چاہے جانے دیا جائے۔[2]
شاہ عبدالعزیز دہلوی رحمہ اللہ نے لکھا: یہ معاملات عائشہ رضی اللہ عنہا کی رضامندی سے پیش نہیں آئے اور نہ ہی انھیں ان کا علم ہوا۔ بلکہ جب انھیں عثمان بن حنیف کے ساتھ کی جانے والی بدسلوکی کا علم ہوا تو ان کے سامنے اپنی لاعلمی کا عذر پیش کیا اور ان کو منا لیا۔[3]
وجہ نمبر ۲:.... یہ کہ جب آدمی کسی عمل سے اپنی براء ت کا اعلان کر دے تو اس عمل کو اس کی طرف منسوب کرنا قطعاً جائز نہیں ۔ بلکہ اس عمل کی اس آدمی کی طرف نسبت کرنا اس پر ایسا بہتان لگانے کے مترادف ہے جس سے اللہ اور اس کے رسول نے منع کیا ہے۔ جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو بنو جذیمہ کی طرف بھیجا تاکہ وہ انھیں اسلام کی طرف دعوت دیں چنانچہ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے انھیں اسلام کی دعوت پہنچائی وہ ’’اَسْلَمْنَا‘‘ کہ ’’ہم اسلام لائے‘‘ اچھی طرح نہ کہہ سکے اور کہنے لگے ’’صَبَأْنَا صَبَأْنَا‘‘[4] سیّدنا خالد نے انھیں قتل کرنے اور قیدی بنانے کا حکم دیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر پہنچی
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ بلند کیے اور فرمایا: ’’اے اللہ میں تیرے سامنے خالد کے عمل سے اپنی براء ت کا اعلان کرتا ہوں ۔‘‘[5]
|