عمارہ بن غراب کی حدیث کہ اس کی پھوپھی نے اسے حدیث سنائی کہ اس نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: ہم میں کسی کو حیض آ جائے اور اس کے اور اس کے خاوند کے لیے صرف ایک بچھونا ہو۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں تمھیں وہ بتاتی ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں آئے اور گھر میں بنی ہوئی اپنی مسجد (جائے نماز) کی طرف چلے گئے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابھی تک واپس نہ آئے کہ مجھے نیند آ گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سردی لگنے لگی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میرے قریب ہو جاؤ۔‘‘ میں نے کہا: میں حائضہ ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگرچہ تم ہو، تم اپنی رانوں سے کپڑا ہٹاؤ۔‘‘ میں نے اپنی دونوں رانوں سے کپڑا ہٹایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا رخسار اور اپنا سینہ میری رانوں پر رکھا اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھک گئی تاآنکہ آپ کو گرمی پہنچی اور آپ سو گئے۔[1]
پھر رافضی کہتا ہے بظاہر عائشہ رضی اللہ عنہا کو مردوں سے ایسی گفتگو کرنے پر اس علت نے آمادہ کیا جس کے بارے میں مردوں سے گفتگو نامناسب ہوتی ہے کہ وہ اسے اپنی فضیلت اور منقبت سمجھتی تھیں اور اسے یہ تک معلوم نہ تھا کہ یہ تو تمام مردوں اور عورتوں کے عادی معاملات ہیں اور انسانی تقاضے ہیں ہر نبی، آدم سے لے کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک اور اس کی بیوی کے درمیان پیش آتے ہیں اور آج تک پہلے انبیاء میں سے یا ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سوائے عائشہ کے کسی بیوی نے ایسی بات کسی کو نہیں بتائی جو نامناسب ہو اور اگر ان باتوں کے بتانے سے عائشہ رضی اللہ عنہا کا مقصد یہ تھا کہ وہ معصوم نبی کے افعال لوگوں کو بتائے کیونکہ معصوم کا ہر فعل امت کے لیے حجت ہوتا ہے تو اس کے لیے یہ بھی ممکن تھا کہ وہ صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال بتاتی اور درمیان میں اپنا تذکرہ نہ کرتی۔ بہرحال عائشہ کا اندازہ غلط ہو گیا اور اس کے لیے رسوائی ہوئی۔[2]
جواب:
اے رافضی! میرا اندازہ اور تخمینہ تیرے لیے رسوائی کا پھندا بن جائے گا۔
ان باتوں میں سے جو احادیث ضعیف ہیں یہی اس کا رد ہے اور جو ان میں سے صحیح ہیں تو اللہ تعالیٰ حق بات کہنے سے نہیں شرماتا۔ ایک آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا :اگر کوئی آدمی اپنی بیوی سے جماع
|