’’تو ہو سکتا ہے کہ تم ایک چیز کو ناپسند کرو اور اللہ اس میں بہت بھلائی رکھ دے۔ ‘‘
وہ فوائد جن کا تعلق سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ہے:
۱۔اللہ تعالیٰ نے ان کے درجات اس قدر بلند کر دئیے حتیٰ کہ ان کا اجر کبھی منقطع نہیں ہو گا اور جو جو حسد کی آگ میں جلنے والے اور کینہ کی غلاظتوں میں لتھڑنے والے اپنے سیاہ کرتوتوں اور کالی زبانوں کے ساتھ امی جان رضی اللہ عنہا کی شان میں گستاخیاں کرتے رہیں گے، اللہ عزوجل ان کے اعمال تباہ و برباد کرتا رہے گا۔
اللہ تعالیٰ کی حکمت بھی کتنی عجیب ہے کہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو یہ فہم عطا ہو چکا تھا۔ جب ان کو بتایا گیا کہ کچھ لوگ صحابہ رضی اللہ عنہم کو طعن و تشنیع کا نشانہ بناتے ہیں حتیٰ کہ انھوں نے سیّدنا ابوبکر اور سیّدنا عمر رضی ا للہ عنہما کو بھی نہ چھوڑا تو سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فی البدیہ جواب دیا: اس چیز پر تم کیوں تعجب کرتے ہو جب ان کے اعمال منقطع ہو گئے تو اللہ تعالیٰ کو یہ پسند نہ تھا کہ ان کے اجر بھی منقطع ہو جائیں ۔[1]
ابن مہدی سے مروی ہے کہ اگر مجھے اللہ تعالیٰ کی معصیت سے نفرت نہ ہوتی تو میں ضرور تمنا کرتا کہ مصر کے سبھی لوگ میری غیبتیں کریں ۔ بھلا کون سی چیز اس نیکی سے زیادہ بابرکت ہو گی جس کا اجر آدمی کو اس کے نامہ عمل میں ملے گا اگرچہ آدمی نے اس پر عمل نہ کیا ہو گا۔[2]
۲۔ آزمائش سے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت میں مزید نکھار آ گیا۔ کیونکہ اللہ کے محبوب بندوں پر آنے والی ہر آزمائش ان کے لیے بھلائی کا باعث بنتی ہے۔[3]
۳۔جب اللہ تعالیٰ نے ان کی پاک دامنی کے ثبوت کے طور پر قرآن کریم نازل فرمایا جو قیامت تک پڑھا جاتا رہے گا تو سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی قدر و منزلت میں لا محدود اضافہ ہو گیا۔اسی لیے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اس چیزپر فخر کیا کرتی تھیں کہ اللہ تعالیٰ نے ساتویں آسمان کے اوپر سے ان کی براء ت نازل کی ہے اور اگر یہ آزمائش نہ ہوتی تو امت کو سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی اہمیت کا کیسے پتا چلتا؟
۴۔اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی قدر و منزلت کا بھی پتا چلتا ہے کہ
|