بالکل اسی طرح ہی مفسر زمخشری[1] اور بیضاوی[2] وغیرہ نے کہا ہے۔[3]
ب:....واقعہ افک کب پیش آیا؟
اس واقعہ کی متعین تاریخ پر مؤرخین متفق نہیں ۔[4]
چنانچہ تین اقوال مشہور ہیں : ’’۴ ہجری، ۵ ہجری اور ۶ ہجری۔ جبکہ زیادہ مناسب ۵ ہجری ہے۔‘‘[5]
ج:.... اس فتنہ کا بانی مبانی (ماسٹر مائنڈ) کون تھا؟
سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : ’’جو اس واقعہ کا ذمہ دار ہے وہ عبداللہ بن ابی بن سلول تھا۔‘‘[6]
ابن جریر نے لکھا:
’’علماء و سیرت نگاروں کے درمیان کوئی اختلاف نہیں کہ سب سے پہلے جس نے بہتان لگایا اور اپنے گھر والوں کو اکٹھا کر کے اس کے بارے میں افواہیں پھیلاتا تھا وہ عبداللہ بن ابی بن سلول ہے اور جیسا کہ میں نے لکھا اس معاملے کے گھناؤنے پن کی وجہ سے اسے اس فعل کا موجد کہا جاتا ہے۔‘‘[7]
اس وضاحت سے ہمارا مقصد فرقہ ناصبیہ کی اس تہمت سے پردہ اٹھانا ہے جس کے تحت وہ مشہور کرتے ہیں کہ سیّدہ عائشہ کے بارے میں جو افواہیں گردش کر رہی تھیں وہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ ایجاد کرتے تھے اور قرآن کے مطابق وہی وہ شخص ہے جسے اس کے تکبر نے اس پر آمادہ کیا۔ اس تہمت کا پردہ امام، فاضل ابن شہاب زہری نے چاک کیا۔
|