۳۔ خلیفہ مقتدر باللہ (ت ۳۲۳ ہجری) کا فیصلہ:
اسے خبر ملی کہ کچھ رافضی لوگ مسجد براثا میں اکٹھے ہو کر صحابہ کرام کو گالیاں دیتے ہیں اور نماز جمعہ بھی ادا نہیں کرتے اور قرامطہ[1]کے ساتھ ان کی مراسلت اور خط و کتابت جاری ہیں ۔ خلیفہ نے لوگوں کو ان سے محتاط رہنے کی ہدایت کی اور مسجد کے متعلق علماء سے فتویٰ طلب کیا تو علماء نے فتویٰ دیا کہ یہ مسجد ضرار ہے۔ چنانچہ جن کو وہ گرفتار کر سکا انھیں شدید زد و کوب کیا اور ان کی خوب تشہیر کروائی اور مذکورہ مسجد کو گرا دیا۔[2]
۴۔ خلیفہ القادر باللہ[3] (ت: ۴۲۲ ہجری) کا فیصلہ:
القادر باللہ رحمہ اللہ نے اپنے عقیدہ کے ضمن میں لکھا جو کہ المنتظم، ج ۴، ص: ۳۸۴ میں علامہ ابن الجوزی نے تحریر کیا: ’’جو ہماری ماں سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو گالی دے گا اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ۔‘‘
۵۔ عباسی خلیفہ: المستضیء بامر اللہ (ت ۵۷۵ ہجری) کا فیصلہ:
انھیں بغداد میں ایک شاعر کے متعلق پتا چلا جو روافض کا شاعر اور مداح تھا۔ اسے ابن قرایا کہتے تھے۔ وہ بازاروں اور منڈیوں میں جاتا اور وہ اشعار پڑھتا جن میں صحابہ کی مذمت ہوتی، انھیں گالیاں دیتا ان سے پناہ مانگتا اور ان سے محبت کرنے والوں کی ہجو کرتا تو خلیفہ کے حکم سے اس کی پیشی کے لیے ایک کمیٹی بنائی گئی، جب تفتیش کی گئی تو پتا چلا کہ روافض کے غلیظ عقائد کا داعی ہے۔ تب فقہاء نے اس کی زبان اور دونوں ہاتھ کاٹ دینے کا فتویٰ دیا۔ اسے یہی سزا دی گئی۔ پھر عوام نے اسے حکمرانوں سے چھین لیا اور اسے پتھروں اور اینٹوں سے سنگسار کرتے رہے حتی کہ اس نے خود بخود دریائے دجلہ میں چھلانگ لگا دی۔ لوگوں نے اسے وہاں سے زندہ نکال کر قتل کر دیا۔[4]
|