دوسری فصل:
سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے اہل بیت رضی اللہ عنہم سے تعلقات کا جائزہ اہل تشیع کی کتب سے
ابن ابی الحدید لکھتا ہے: بے شک امیر المومنین علی علیہ السلام نے ان (سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ) کی تکریم کی، ان کی حفاظت کی اور ان کی عظمت شان کا اعتراف کیا۔
شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
نَسْبٌ أَضَائَ عُمُوْدُہٗ فِیْ رِفْعَۃٍ
کَالصُّبْحِ فِیْہِ تَرَفَّعٌ وَ ضِیَائٌ
وَ شَمَائِلٌ شَہِدَ الْعَدُوُّ بِفَضْلِہَا
وَ الْفَضْلُ مَا شَہِدَتْ بِہِ الْاَعْدَائُ
’’وہ ایسے عالی شان نسب ہے جو صبح صادق کی طرح روشن اور بلند ہو رہا ہے اور ایسے فضائل اپنے اندر سمو رکھے ہیں کہ دشمن بھی ان کا معترف ہے اور حقیقی فضائل تو وہی ہوتے ہیں جن کے معترف دشمن بھی ہوتے ہیں ۔‘‘
اے قارئین محترم! گزشتہ صفحات کے مطالعہ سے آپ کے سامنے حقائق واضح ہو چکے کہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور سیّدنا علی اور دیگر اہل بیت رضی اللہ عنہم کے درمیان حسین تعلقات قائم رہے۔ اب ہم خود روافض اور شیعہ مصنّفین کی کتب سے اس حقیقت کے دلائل برائے اتمام حجت پیش کرتے ہیں ۔ تاکہ ہمارا مدمقابل اپنی پناہ گاہوں میں موجود دلائل سے مطمئن ہو جائے اور ان دلائل میں موجود تفاصیل سے ہمارا متفق ہونا ضروری نہیں ، کیونکہ ان کی اکثر روایات، جھوٹ، تدلیس اور تقیہ جیسی قبیحات سے خالی نہیں ہوتیں ، لیکن ہمارا مقصد صرف یہ ہے کہ ان کی کتابوں سے ایسے دلائل پیش کیے جائیں جن میں سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور تمام اہل بیت رضی اللہ عنہم کے باہمی طور پر احسن تعلقات اور حسن معاشرت کی جھلک نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔[1] اس
|