بحث میں ہم ابن ابی الحدید[1] کی کتب پر اعتماد کریں گے۔ ابن ابی الحدید اگرچہ غالی تھا اور ’’نہج البلاغۃ‘‘ کی شرح کرتے وقت اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بکثرت بہتان تراشی اس کا وطیرہ ہے۔ (اور جب کہ وہ اسلام اور اہل اسلام کے لیے اعتزال، رفض اور مکر و فریب کا بہت بڑا داعی ہے اور ابن علقمی کے ساتھ اس کے روابط بخوبی ہمارے علم میں ہیں۔)[2] لیکن دیگر غالی شیعوں کے احوال کا مطالعہ کرنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ ابن ابی الحدید تمام شیعوں میں سے صاحب علم و فضل اور اہل تشیع کے مصنوعی فلسفے سے بالکل الگ تھلگ ہے۔[3]
اس کی عجیب و غریب خصلت یہ بھی ہے کہ وہ جب بھی سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا تذکرہ کرتا ہے، اکثر مقامات پر ان کا تذکرہ نیکی اور بھلائی کے ساتھ کرتا ہے اور ان کے جنتی ہونے کی گواہی دیتا ہے۔ ہم اس بحث میں اس کے چند جملے نقل کریں گے۔
قارئین کرام ان میں چھپے ہوئے حقائق کو بخوبی دیکھ لیں گے اگرچہ اس کے کچھ اقوال علانیہ طور پر باطل ہوتے ہیں اگر کسی مقام پر اس وضاحت کی ضرورت پڑی تو ہم اس کی طرف ضرور اشارہ کریں گے اور اسے ہم نے اس لیے منتخب کیا ہے کہ یہ اہل تشیع کے نزدیک معتمد علیہ مصدر و مرجع ہے اور جو لوگ سیّدنا ابوہریرہ اور سیّدتنا و امنا عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایات پر طعن کرتے ہیں وہ بھی اس پر اعتماد کرتے ہیں ۔
۱۔اہل تشیع کی گواہی:
اہل تشیع گواہی دیتے ہیں کہ سیّدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حفاظت کی، ان کی تکریم اور ان کی شان و عظمت کا اعتراف کیا۔ ابن ابی الحدید لکھتا ہے:
’’امیر المومنین(علی رضی اللہ عنہ ) علیہ السلام نے اس کی تکریم کی اس کی حفاظت کی اور اس کی عظمت و شان بیان کی اور جو پسند کرتا ہے کہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ سلوک کا مطالعہ کرے تو اسے کتب سیر کا مطالعہ کرنا چاہیے۔‘‘[4]
|