مزید لکھتا ہے:
’’ تمھیں بخوبی معلوم ہے کہ عائشہ( رضی اللہ عنہا ) سے کیا غلطی ہوئی ، چنانچہ جب علی رضی اللہ عنہ کو اس پر غلبہ حاصل ہوا تو علی رضی اللہ عنہ نے اس کی تکریم کی اور بنو عبد القیس کی بیس سرکردہ خواتین اس کے ساتھ مدینہ منورہ روانہ کیں ۔ علی رضی اللہ عنہ نے ان سب کی دستار بندی کی اور انھیں تلواروں سے مسلح کیا۔‘‘[1]
۲۔ سیّدنا علی و فاطمہ رضی ا للہ عنہما کے فضائل و مناقب کی روایات کا سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے بیان:
ابن ابی الحدید گواہی دیتا ہے کہ عائشہ( رضی اللہ عنہا ) نے سیّدنا علی و سیّدہ فاطمہ اور تمام اہل بیت رضی اللہ عنہم کے فضائل و مناقب والی احادیث روایت کی ہیں ۔
ابن ابی الحدید لکھتا ہے: جہاں تک مسروق کا تعلق ہے تو وہ تاحیات جب بھی کوئی نماز پڑھتا اس کے بعد وہ علی رضی اللہ عنہ کے لیے دعا ضرور کرتا، اس حدیث کی وجہ سے جو اس نے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت میں سنی تھی۔[2]
مسروق بن اجدع رحمہ اللہ جلیل القدر تابعی ہیں ۔ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے فضائل سب لوگوں سے زیادہ جانتے تھے اور وہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے شاگرد تھے جیسا کہ اس کے تعارف میں لکھا ہوا ہے۔[3]
اہل سنت کی کتابوں میں ایسا کوئی ثبوت نہیں جس سے پتا چلے کہ مسروق ہر نماز کے بعد علی رضی اللہ عنہ کے لیے دعا کرتا تھا۔ ابن ابی الحدید اکیلا نہیں جس نے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے اہل بیت کے فضائل کے متعلق روایت ذکر کی بلکہ متاخرین میں سے جو اس مقدس ہستی پر کثرت سے جھوٹے الزام لگاتے ہیں وہ بھی سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے سیّدہ فاطمہ کے فضائل والی روایت بیان کرتے ہیں ۔ ان میں سے کسی نے کہا: عائشہ( رضی اللہ عنہا ) فاطمہ( رضی اللہ عنہا ) کی ثنا بیان کرتے ہوئے کہتی ہے: میں نے اس سے زیادہ سچا اس کے باپ کے علاوہ کسی کو نہیں دیکھا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے علی رضی اللہ عنہ کے علاوہ کوئی اور شخص نہیں دیکھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے زیادہ محبوب ہو اور نہ ہی میں نے کوئی عورت دیکھی جو سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی بیوی (سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا ) سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو محبوب ہو۔[4]
|