کے درمیان صلح کروانے کی نیت سے گئی تھیں ۔ اکثر مواقع پر وہ اس کی وضاحت کرتی رہتی تھیں ۔ مثلاً جب بصرہ کے گورنر عثمان بن حنیف نے عمران بن حصین اور ابو الاسود دؤلی کو سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہ پوچھنے بھیجا کہ وہ بصرہ کیوں آئی ہیں ؟ تو انھوں نے بصراحت بتایا کہ وہ سیّدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے قصاص کا مطالبہ لے کر آئی ہیں چونکہ وہ مظلومیت کی حالت میں ناحق قتل کیے گئے اور حرمت والے مہینے میں قتل کیے گئے اور حرمت والے شہر میں قتل کیے گئے اور ساتھ ہی سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان پڑھا:
﴿ لَا خَيْرَ فِي كَثِيرٍ مِنْ نَجْوَاهُمْ إِلَّا مَنْ أَمَرَ بِصَدَقَةٍ أَوْ مَعْرُوفٍ أَوْ إِصْلَاحٍ بَيْنَ النَّاسِ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ فَسَوْفَ نُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا﴾
(النساء: ۱۱۴)
’’ان کی بہت سی سر گوشیوں میں کوئی خیر نہیں ، سوائے اس شخص کے جو کسی صدقے یا نیک کام یا لوگوں کے درمیان صلح کرانے کا حکم دے اور جو بھی یہ کام اللہ کی رضا کی طلب کے لیے کرے گا تو ہم جلد ہی اسے بہت بڑا اجر دیں گے۔‘‘[1]
تاہم اس کے بعد جو معاملات ان کے سپرد ہوتے گئے وہ ان پر قطعاً خوش نہ تھیں بلکہ ہمیشہ ان پر ندامت کا اظہار کرتی رہیں اور لوگوں کو پرسکون رہنے اور باہمی صلح و صفائی میں کوشاں رہیں ۔[2] اس کی مزید تفصیل آگے آ رہی ہے۔
۶۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا جہاد وشجاعت:
سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی شجاعت و بسالت ناقابل بیان ہے۔ وہ اندھیری رات میں مدینہ منورہ کے قبرستان ’’بقیع الغرقد‘‘ میں چلی جاتیں ۔ انھیں ذرّہ بھر خوف یا تردّد نہ ہوتا۔ اسی طرح بے باک میدانِ جہاد میں پہنچ جاتیں ، کسی قسم کا ڈر یا خوف نہ ہوتا اور مسلمانوں کے ساتھ مشرکین کے خلاف جہاد میں بے باکانہ حصہ لیتیں اور مجاہدین اسلام کی خوب خدمت کرتیں ۔
۱۔ سیّدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
’’جب غزوۂ احد بپا ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے مجاہدین بکھر گئے۔ بقول راوی میں نے سیّدہ عائشہ بنت ابی بکر اور ام سلیم رضی اللہ عنہم کو دیکھا وہ پورے جوش و جذبے ، کامل ہمت اور
|