کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس پلٹے۔ میں بھی واپس پلٹ آئی۔آپ تیز تیز چلنے لگے، میں بھی مزید تیز چلنے لگی۔آپ دوڑنے لگے، میں بھی دوڑنے لگی۔ بہر حال میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے حجرے میں داخل ہو گئی۔ میں ابھی بستر پر لیٹی تھی کہ آپ بھی حجرہ میں داخل ہوئے اور فرمانے لگے: اے عائش! کیا بات ہے ، سانس کیوں پھولا ہوا ہے؟
راوی حدیث: سلیمان کہتا ہے:میرا خیال ہے ، آپ نے ((حَشْیًا)) کہا۔ (اس کو کہتے ہیں جو دَمہ کا مریض ہو اور اس کا سانس آجا رہا ہو)ساتھ ہی آپ نے فرمایا: تم مجھے بتادو، یا مجھے وہ لطیف و خبیر ضرور بتائے گا۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان۔ میں نے آپ کو پوری بات بتا دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے آگے جو سایہ تھا وہ تم تھی؟ میں نے کہا: جی ہاں ۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ آپ نے میرے سینے پر ہاتھ مارا ،[1] جس سے مجھے درد کا احساس ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم نے یہ گمان کیا کہ اللہ اور اس کا رسول تم پر ظلم کریں گے؟ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہہ دیا: لوگ چاہے جتنا بھی چھپائیں بے شک اللہ تعالیٰ اسے ضرور بتلا دے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں ایسا ہی ہے۔‘‘[2]
بے شک جب تم نے مجھے دیکھا تو جبریل علیہ السلام میرے پاس آئے اور تم نے چونکہ اپنے کپڑے رکھ دیے تھے اس لیے وہ تمہارے سامنے نہ آئے، انھوں نے مجھے پکارا۔ میں نے ان کی پکار پر لبیک کہا، اور اپنی پکار کو تم سے مخفی رکھا۔ میں نے سوچا کہ تم سو چکی ہو گی اور تمھیں جگانا مناسب نہ سمجھا۔ مجھے اندیشہ ہوا کہ تم ڈر جاؤ گی، جبریل علیہ السلام نے مجھے حکم دیا کہ میں اہل بقیع کے پاس آؤں اور ان کے لیے استغفار کروں ۔‘‘ [3]
|