پانچواں نکتہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے آخری ایام میں سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے احوال و کیفیات و محسوسات
اگر اللہ عزوجل کی قضا و قدر پر اسلام نے صبر و رضا کا درس نہ دیا ہوتا تو پیچھے رہ جانے والوں کے لیے اپنے پیاروں کی جدائی کے لمحات کتنے شدید ہوتے اور انسانی جان کی برداشت سے کس طرح باہر ہوتے یہ بیان کرنے کی شاید ضرورت نہیں ہے۔
ذرا غور کریں کہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا جو اپنی عمر فانی کے اٹھارویں سال میں تھیں ۔ جب ان کے سرتاج اور ساری دنیا سے ان کو زیادہ محبوب سیّد الانبیاء اس دنیا سے رخصت ہوئے تو اس وقت ان پر کیا بیتی ہو گی؟
ابتدا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک میں معمولی سا درد ہوا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں گئے تو سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ہائے میرا سر (درد سے پھٹا جا رہا ہے)۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بلکہ ہائے میرا سر (درد سے پھٹا جا رہا ہے)۔‘‘ [1]
اس دن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر درد شروع ہوا اور وہ مسلسل روز بروز بڑھتا گیا۔ اس سے پہلے کبھی کبھار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی ہلکا کبھی تیز سر درد ہوتا رہتا تھا۔ اس کے باوجود آپ اپنی مقررہ باریوں پر اپنی ازواج کے گھروں میں جاتے رہتے۔ جونہی درد بڑھنا شروع ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پوچھنے لگے کہ آج میں کہاں ہوں گا اور کل میں کہاں ہوں گا۔[2] دراصل آپ کو سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی باری کی فکر ہوتی۔ چنانچہ آپ نے اپنی ازواج مطہرات سے اجازت لے لی کہ آپ جہاں چاہیں رہیں ۔ اس دن سے اپنی وفات تک آپ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں ہی رہے اور وہیں دفن کیے گئے۔ اس بارے میں سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری بڑھنا شروع ہوئی اور آپ کے سر درد میں اضافہ ہو گیا۔ تو آپ نے اپنی ازواج سے اجازت طلب کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تیمار داری کے لیے لوگ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر آئیں ، سب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کی اجازت دے دی آپ اپنی جس بیوی کے گھر میں تھے وہاں سے آپ سیّدنا عباس بن عبدالمطلب اور ایک اور آدمی کے کندھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے اپنے
|