Maktaba Wahhabi

635 - 677
۳۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے خطاب کیا اور ان سے اللہ کے دشمن عبداللہ بن ابی بن سلول کی سازش سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو اذیت سہنی پڑی کے شر سے اپنے آپ کو محفوظ کرنے کے لیے لوگوں سے مدد طلب کی۔ ۴۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے والدین کے گھر گئے اور انھیں نصیحت کی اوربتایا کہ اگر وہ پاک دامن ہوئیں تو اللہ ضرور ان کی پاک دامنی بیان کرے گا۔ ۵۔ابھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھر میں ہی تھے کہ وحی نازل ہونا شروع ہو گئی۔ پھروحی والی کیفیت ختم ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرانے لگے۔ آپ نے سب سے پہلے جو بات کی وہ یہ تھی: ’’اے عائشہ! اللہ تعالیٰ نے تمھیں پاک دامن قرار دیا ہے۔‘‘ ھ: ....صحابہ رضی اللہ عنہم کے موقف : اللہ تعالیٰ کی مشیت سے یہ فتنہ واقع ہوا جو بظاہر بہت بڑا امتحان اور آزمائش تھا، لیکن الحمد للہ اکثر صحابہ رضی اللہ عنہم سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے معاملہ میں محتاط رہے۔ چنانچہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی پاک دامنی کے متعلق نازل ہونے والی آیات میں ان صحابہ کا تذکرہ یوں فرمایا: ﴿ لَوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوهُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بِأَنْفُسِهِمْ خَيْرًا وَقَالُوا هَذَا إِفْكٌ مُبِينٌ﴾ (النور: ۱۲) ’’کیوں نہ جب تم نے اسے سنا تو مومن مردوں اور مومن عورتوں نے اپنے نفسوں میں اچھا گمان کیا اور کہا کہ یہ صریح بہتان ہے۔‘‘ بہتان تراشوں کی افواہوں میں صرف تین صحابہ کرام پھسل گئے: ۱۔سیّدنا حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ [1] ۲۔سیّدنا مسطح بن اثاثہ رضی اللہ عنہ ۳۔سیّدہ حمنہ بنت جحش رضی اللہ عنہا ان تینوں سچے مومنوں کو حد قذف کے طور پر اسّی اسّی کوڑے مارے گئے، جو ان کے لیے ان کے گناہوں سے تطہیر اور ان کے گناہوں کا کفارہ بن گئے۔ اللہ ان سے راضی ہو جائے۔[2]
Flag Counter